سابق امریکی وزیر خارجہ کے معاون لارنس ولکرسن کی ملکی پالیسیوں پر کڑی تنقید

0

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے 26 مارچ کو میڈیا بریفنگ میں نامہ نگاروں کے ساتھ ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا۔ ویڈیو میں سابق امریکی وزیر خارجہ کولین پاول کے معاون  لارنس ولکرسن اعتراف کرتے ہیں کہ “افغانستان میں تعینات امریکی فوجیں افغانستان کی تعمیرنو میں مدد کرنے کے لئے ہرگز نہیں ہیں ، اور نہ ہی طالبان یا کسی دہشت گرد تنظیم کا مقابلہ کرنے کے لئے۔ امریکی فوج کی موجودگی کے تین اسٹریٹجک اہداف ہیں۔ ایک ، کیونکہ افغانستان ہی واحد علاقہ ہے جس کے ذریعے  امریکہ  وسطیٰ ایشیا سے گزرنے والے “دی بیلٹ اینڈ روڈ” پر اثرات ڈال سکتا ہے۔ دوسرا ، افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان کی جوہری طاقت پر نگاہ رکھنا ۔تیسرا ، چین کے سنکیانگ میں 20 ملین ویغور ہیں ۔اگر امریکہ چین کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے تو  بہترین طریقہیہی ہے کہ سنکیانگ میں بد امنی پیدا کی جائے اور اندرونی طور پر چین کو نقصان پہنچایا جائے۔

امریکی حکومت کے سابق اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے لارنس ولکرسن تباہ کن ہتھیاروں کی موجودگی کی آڑ میں، عراق کے خلاف جنگی تیاریوں میں شریک رہے ہیں۔ تاہم عراق میں امریکی فوج کی پرتشدد کارروائیوں کو دیکھ کر لارنس ولکرسن کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔انہیں محسوس ہونے لگا  ہے کہ عراق میں فوج کشی ایک “تاریخی غلطی” ہے۔ “انویزیبل اینڈ”نامی  دستاویزی فلم میں  ولکرسن سمیت عراق جنگ کے 35 عینی شاہدین نے امریکی حکومت سے متعلق اپنے تجربات اور مایوسی کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔

“امریکی صدر کسی بھی وقت فوجی طاقت کے استعمال کا حکم  کیوں دےسکتا ہے؟ولکرسن نے اپریل 2018 میں ریئل نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: “امریکی عوام کی بے حسی اور کانگریس ممبران کی کمزوری کی وجہ سے  امریکی صدر کے لا محدود اختیارات پر موئثر پابندی نہیں لگائی جا سکتی ہے “

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مشرق وسطیٰ سمیت دیگر متعدد خطوں میں امریکی مداخلت کی اصل وجہ تیل اور قدرتی گیس سے وابستہ تجارتی مفادات تھے ، بقیہ بیانیہ ما سوائے جھوٹ کچھ نہیں۔  ویتنام جنگ ، عراق جنگ ، افغانستان جنگ سے لیکر شام کی جنگ تک  ، اپنی جارحیت کی توجیحات تلاش کرنا امریکی حکومت کی “طویل روایت” ہے۔

2009 میں ، ویلکرسن کو “انٹلیجنس کمیونٹی کی سالمیت اور اخلاقیات کے شراکت کار” کے طور پر سیم ایڈمز ایسوسی ایشن کا ایوارڈ  بھی دیا گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here