چین اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے نوول کورونا وائرس کے ماخذ پر مشترکہ تحقیقی رپورٹ تیس مارچ کو جنیوا میں شایع ہوئی ۔ رپورٹ میں وائرس کا لیبارٹری سے انسان تک منتقلی کا انتہائی کم امکان ظاہر کیا گیا ہے اور دوسرے ممالک میں وبا کے ابتدائی پھیلاؤ پر تحقیقات کو اہم قرار دیا گیا ہے ۔
مشترکہ ماہرین کی ٹیم کے غیرملکی سربراہ پیٹر بین ایمبارک نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ابھی وو ہان شہر میں وبا کے ماخذ پر تحقیقات جاری ہیں تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ وائرس کس طرح چین کے دوسرے علاقوں یا دوسرے ممالک سے یہاں آیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے سخت ابہام ہے کہ بعض اقسام کے چمگادڑ جو وائرس کے میزبان ہیں جنوب مشرقی ایشیا میں بھی پائے جاتے ہیں ، اور وہاں بھی کورونا وائرس سے ملتے جلتے وائرس برآمد ہوئے ہیں ۔ان میں “مضبوط علامتیں ” ہیں کہ وہ وائرس کا ماخذ ہوسکتے ہیں ۔اس حوالےسے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
پیٹر پین ایمبارک نے دوسرے ممالک میں بھی تحقیقات کی تجویز پیش کی ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مشترکہ تحقیقات میں شامل چینی و غیرملکی ماہرین کے پیشہ ورانہ جذبے کو سراہا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے اکتیس مارچ کو معمول کی پریس کانفرنس میں کورونا وائرس کے ماخذ کی تلاش کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے تناظر میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وائرس کے ماخذ کی تلاش ایک سائنسی مسئلہ ہے ۔ اس پر سیاست نہیں کی جانی چاہیئے ۔ امریکہ نے چند ممالک کے ساتھ نام نہاد “مشترکہ بیان” جاری کیا اور عالمی ادارہ صحت اور چین کے مشترکہ ماہر گروپ کی رپورٹ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یہ واضح شہادت ہے کہ وہ لوگ سائنس کی توہین کرتے ہوئے ماخذ کی تلاش کے نام پر سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے یہ اقدامات انتہائی غیر اخلاقی اور غیر مقبول ہیں۔وہ صرف عالمی تعاون میں رکاوٹیں پیدا کرسکتے ہیں ، انسداد وبا کی عالمی کوششوں کو کمزور کرسکتے ہیں اور مزید جانی نقصانات کی وجہ بن سکتے ہیں ۔