گزشتہ دو برس کے دوران امریکہ اور چند مغربی ممالک نے سنکیانگ کی کاٹن انڈسٹری کو بدنام کرنے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس سے قبل 1990 کے دہائی میں سی این این اور بی بی سی نے سربینوں کی جانب سے البانیوں کی نسل کشی کی جھوٹی کہانیاں گھڑیں۔ 2003 میں کولن پاؤل نےعراق میں بڑے پیمانے پر خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی کا واویلہ مچایا۔ مغربی میڈیا اور سیاستدان پہلے جھوٹی سنسنی خیز خبروں کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں اور پھر انصاف کے نام پر فوجی کارروائی کرتے ہیں۔
سنکیانگ میں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں “جبری مشقت” کی افواہوں کے بعد اگلا قدم عسکری کارروائی نہیں ہو سکتا کیونکہ مغرب میں ایسا سوچنے کی بھی ہمت نہیں ہے۔ یہاں چین کی ترقی کا راستہ روکنے کے لئے غیر سرکاری تنظیموں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ، بی سی آئی ایسوسی ایشن “جبری مشقت” کی افواہوں کا استعمال کرتے ہوئے رکن کاروباری اداروں سے سنکیانگ کی کاٹن مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کررہی ہے۔
جبری مشقت کو امریکہ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔1860 کی دہائی میں کاٹن جنوبی امریکہ کی معیشت ، سیاست اور ثقافت کا مرکز تھی، کاٹن پیسے اور طاقت کی علامت تھی۔ اپنی اسی طاقت کو فروغ دینے کے لئے امریکہ نے مقامی اقلیتوں کی زمینوں پر بے دریغ قبضے کئے اور انہیں کام کرنے کے لئے جبری غلام بنایا۔ امریکی حکمرانوں نے روئی کے کھیتوں میں خوفناک “جبری مشقت” کا استعمال کیا۔ ظلم و جبر کا یہ سلسلہ کم از کم سو برس تک جاری رہا۔
اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے کہا کہ امریکہ سے بہتر جبری مشقت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ امریکہ کی تاریخ سینکڑوں سالوں سے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔چین پر الزام تراشی سے پہلے وہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں۔