2مارچ2021کو چینی وزارت خارجہ نے نوول کورونا وائرس کےماخذ کا سراغ لگانے کے حوالے سے چین اور عالمی ادارہ صحت کی مشترکہ تحقیقات کے بارے میں چین میں تعینات یورپی سفیروں کے لئے بریفںگ کا اہتمام کیا۔ یورپی یونین اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے29 سفیروں اور چالیس سے زائد سفارتی اہلکاروں نے اس بریفنگ میں شرکت کی۔
اس موقع پر نوول کورونا وائرس کےماخذ کا سراغ لگانے کے حوالے سے چین اور عالمی ادارہ صحت کی مشترکہ تحقیقی ماہر ٹیم کے چینی سربراہ لیانگ وان نیان نے بریفنگ دی ۔ انہوں نے بتایا کہ رواں سال چودہ جنوری سے دس فروری تک عالمی ماہرین گروپ نے وو ہان آکر تحقیق کی۔ ان ماہرین نے جن یان تن ہسپتال، ہوا نان سی فوڈ مارکیٹ اور ووہان وائرالوجی لیب سمیت نو مختلف جگہوں پر تحقیق کی۔
لیانگ وان نیان نے کہا کہ فریقین کی مشترکہ کوشش سے اس تحقیق کے جو نتائج سامنے آئے ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے : پہلا ، چمگادڑ اور پینگولین میں پائے جانے والے وائرس کے جین کی ترتیب نوول کورونا وائرس سے کافی ملتی جلتی ہے، لیکن یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ ان جانوروں میں پائے جانے والے وائرس براہ راست نوول کورونا وائرس کے اجداد ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہوا نان سی فوڈ مارکیٹ وہ پہلی جگہ ہے جہاں اس وائرس کی شناخت ہوئی ۔تیسرا، ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ نوول کورونا وائرس کسی درمیانی واسطے کے ذریعے انسان میں منتقل ہوا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ نوول کورونا وائرس براہ راست کولڈ چین فوڈ کے ذریعے براہ راست منتقل ہوا ہو، تاہم تجربہ گاہ سے انفیکشن کی منتقلی ناممکن ہے۔
لیانگ وان نیان نے کہا کہ ماہرین کی مشترکہ ٹیم نے تجاویز پیش کی ہیں کہ سب سے پہلے ، عالمی سطح پر متحد ڈیٹا بیس کے قیام کو فروغ دیاجائے جس میں وائرس کی جینیاتی ترتیب ، طبی و وبائی امراض ، جانوروں کی نگرانی اور ماحولیاتی نگرانی سے متعلق اعداد و شمار وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ عالمی سطح پر ممکنہ ابتدائی کیس کی تلاش جاری رکھی جائے۔ تیسری، چمگادڑ کے علاوہ جانوروں کی ان انواع کو تلاش کیا جائے ، جو وائرس کی میزبان ہو سکتی ہیں۔ چوتھی تجویز یہ ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ میں کولڈ چین اور منجمد کھانے کے کردار کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جائیں۔