ورلڈ اکنامک فورم نے 18 تاریخ کو اعلان کیا کہ 25 سے 29 جنوری تک”ڈیووس ایجنڈا”مکالمہ ویڈیو لنک کے ذریعے منعقد ہوگا۔ دنیا بھر کے 70 سےزیادہ ممالک اور خطوں کے سیاسی ، تجارتی اور سماجی تنظیموں کے ایک ہزار پانچ سو سے زیادہ رہنما ” اعتماد کی تعمیر نو اور کلیدی سال ” کےموضوع پر مفصل تبادلہ خیال کریں گے ، وبا کے تحت دنیا کو درپیش چیلنجوں کا تجزیہ کریں گے اور وبا سے لڑنے میں تعاون کی مضبوطی کے طریقہ کارتلاش کریں گے۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے 19 تاریخ کو بتایا کہ ورلڈ اکنامک فورم کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین کلاز شواب کی دعوت پر ، صدر شی جن پھنگ 25 جنوری کو بیجنگ میں ویڈیو لنک کے ذریعے ورلڈ اکنامک فورم کے “ڈیووس ایجنڈا” مکالمہ میں شرکت کریں گے اور ایک خصوصی خطاب کریں گے۔
گزشتہ دس بارہ سالوں سے دنیا میں تحفظ پسندی، یکطرفہ پسندی سمیت عالمگیریت اور کثیرالجہتی کے خلاف ایک لہر سی سامنے آ رہی ہے جس کے نتیجے میں عالمگیریت کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ پیدا کی گئی
ہے۔ چین ہمیشہ عالمگیریت اور کثیرالجہتی کا مضبوط حامی رہا ہے اور چین نے مختلف کثیرالجہتی پلیٹ فارمز پر عالمگیریت اور کثیرالجہتی کی بھر پورحمایت کا اظہار کیا اور اس حوالے سے پالیسیوں اور اقدامات کا ایک سلسلہ جاری کیا ہے۔ڈیووس فورم بھی ان کثیرالجہتی پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے ۔
یاد رہے کہ جنوری 2017 میں ، صدر شی جن پھنگ نے پہلی مرتبہ ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی تھی اور “عہد حاضر کی ذمہ داری اور عالمی ترقی کا فروغ” کے عنوان سے افتتاحی تقریب میں ایک اہم خطاب کیا۔ صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں ، اقتصادی عالمگیریت کے بارے میں چین کے خیالات اور تجاویز پر روشنی ڈالی ، اور معاشی عالمگیریت کی حمایت کی مضبوط آواز بلند کی ۔صدر شی کے خطاب پر بین الاقوامی برادری کا پر جوش رد عمل سامنے آیا۔اپنے خطاب میں چینی صدرنے کہا کہ عالمی معیشت کا سمندر ، ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود ، موجود ہے۔تحفظ پسندی کی حمایت کرنا خود کو کسی تاریک کمرے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ صدر شی کا خطاب عالمگیریت کی ترقی کی تاریخ میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔
عالمی برادری کا اتفاق رائے ہے کہ موجودہ صورتحال 2017 کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور پیچیدہ ہے۔ کووڈ-۱۹ کی وبا اب بھی عالمی سطح پر پھیل رہی ہے ، عالمی معیشت شدید مندی کا شکار ہے ، اور عالمی چیلنجز ابھر رہے ہیں۔دنیا ایک بار پھر نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ چین پرامید اور پر اعتماد ہے کہ موجودہ مکالمہ عالمی اتفاق رائے کے حصول ، عالمی اعتماد سازی کی ازسر نو تشکیل ، عالمی تعاون کے فروغ ، اور عالمی برادری کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں مثبت کردار ادا کرے گا۔اس لئے مکالمے میں چینی صدر کی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اس بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ایک بار پھر عالمگیریت کی حمایت کی آواز بلند کرےگا اور تحفظ پسندی اور یکطرفہ پسندی کی مخالفت کرےگا ۔
معاشی عالمگیریت کو رجعت پسندوں سے خطرے کا سامنا ہے۔اس لئے عالمی برادری ایک بار پھر چین کے موقف اور نظریات پر بڑی توجہ دے رہی ہے۔ اصلاحات اور کھلے پن کے بعد سے ، چین نے عالمی معاشی نظام میں فعال طور پر شرکت کی ہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ چین نہ صرف معاشی عالمگیریت سے خود فائدہ اٹھانےوالا ہے بلکہ معاشی عالمگیریت کے عمل میں فعال شریک ہوتے ہوئے اسے فروغ دینے والا بھی ہے۔اس لئے چین عملی طور پر یہ ثابت کرتا چلا آ رہا ہے کہ وہ معاشی عالمگیریت کا مضبوط حامی ہے۔ معاشی
عالمگیریت کو فروغ دینا چین کی قومی حکمت عملی بن چکا ہے۔ ستمبر 2016 میں منعقدہ جی 20 اجلاس میں ، چین نے کھلی عالمی معیشت کی تشکیل ،آزادانہ تجارت اور سرمایہ کاری جاری رکھنے کی اپیل کی ، اور جی 20 ممبران سے مطالبہ کیا کہ وہ نئے تحفظ پسندانہ اقدامات سے گریز کرتے ہوئے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں تاکہ عالمی معیشت مزید کھلی ، جامع ، اور مربوط ہو سکے۔اس وقت بہت سارے ترقی یافتہ ممالک آزادانہ تجارت سے متعلق اپنے وعدوں کو ترک کرتے ہوئے تحفظ پسندی اور یکطرفہ پسندی کی جانب جا رہے ہیں ، چین ، ایک ذمہ دار بڑے ملک کی حیثیت سے ، آزاد تجارت کا علمبردار بن چکا ہے اور بھرپور انداز سے تجارتی تحفظ پسندی کا مقابلہ کررہا ہے۔آئندہ ڈیووس فورم میں صدر شی جن پھنگ کی شرکت اور ان کا خطاب واضح عکاس ہے کہ چین معاشی عالمگیریت کی حقیقی قوت محرکہ بن چکا ہے۔