۲۰۱۵میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک نے پائیدار ترقیاتی اہداف کو عالمی اقدام کےطور پر اپنا یا جس کا مقصد دنیا سے غربت کا خاتمہ ، کرہ ارض کو محفوظ بنانا اوراس بات کو یقینی بنانا ہے کہ۲۰۳۰ تک دنیا کے تمام باسی امن و خوشحالی کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائیں۔
ان اہداف کی تعداد ۱۷ ہے اور یہ تما م آپس میں مربوط ہیں یعنی ان میں سے کسی ایک پر پیش رفت سے دوسرے اہداف پر بھی اثر پڑتاہےاور ان اہداف کا مقصد معاشرتی، معاشی اور ماحولیاتی ترقی میں استحکام اور توازن پیدا کرنا ہے ۔ان اہداف کے تعین سے رکن ممالک نے کسی کو پیچھے نہ چھوڑنے اور سب سے پہلے پیچھے رہنے والوں کے لئے تیز رفتار پیشرفت کا عہد کیا ہے ۔ان ترقیاتی اہداف میں کئی زندگی بدلنے والے
‘زیرو اہداف متعین کیے گئے جن میں صفر غربت ، صفر بھوک ، صفر ایڈز کا حصول اور خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک کا خاتمہ شامل ہیں ۔
عالمی سطح پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتاہے کہ سب سے زیادہ جس ملک نے ان اہداف کوحقیقت کا روپ دھارنے میں پیش رفت کی ہے و ہ عوامی جمہوریہ چین ہے ۔ پچھلے سال دسمبر میں چین کے صدر شی جن پھنگ نے موجودہ معیارات کے مطابق چین کی تمام دیہی آبادی سے انتہائی غربت کے خاتمے کا اعلان کیا ۔ملک بھر کی تمام غریب کاؤنٹیوں کو غربت سے نجات دلائی گئی ۔ اس سنگ میل تک پہنچنے کیلئے آٹھ سال تک سخت محنت کی گئی، صدر مملکت شی جن پھنگ کی قیادت اور نگرانی میں سینکڑوں ہزاروں پارٹی اور حکومتی عہدیداروں نے غربت کے خاتمے کے ہدف کو عملی جامہ پہنایا۔ اس دوران کئی چیلینجز درپیش آئے ، اور بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن استقامت اور مسلسل محنت نے اس بڑے ہدف کے حصول کو ممکن بنایا ۔عوامی جمہوریہ چین نے نہ صرف اپنے ملک سے انتہائی غربت کا خاتمہ کیا ہے بلکہ ماحولیاتی تحفظ میں بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں ، عوام کی حفظان صحت کیلئے موثراقدامات اٹھائے ہیں اور ابتدائی خوشحال معاشرے کے اپنے صد سالہ ہدف کو بھی حاصل کیاہے ۔ چین کی ترقی کا اپنا تصور بھی اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کے اہداف سے مطابقت رکھتاہے ۔ چینی صدر شی جن پھنگ ہمیشہ اپنی تقریروں اور مختلف موقعوں پر ہونے والی گفتگو میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے قیام اور ترقی کے جامع اور ہمہ گیر ہونے کی بات کرتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتےہیں کہ ترقی کے سفر میں کسی ایک فرد کو بھی پیچھے نہیں چھوڑ نا چاہیے اورترقی کے ثمرات عوام کی خوشحالی زندگی کی شکل میں نظر آنے چاہیے ۔ یہی وجہ ہےکہ چین کے طول وعرض میں یکساں ترقی کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے ، انفراسٹر کچر سے
لے کر صحت عامہ کی حفاظت اور دیگر جدید سہولیات کے لحاظ سے چین کے بڑےشہروں اور دور دراز علاقوں میں فرق کم ہوتا جا رہا ہے ۔ کووڈ -۱۹ کی وبا کے دوران بھی صدر شی جن پھنگ بار بار تاکید کرتے رہے کہ زندگی سب سے مقدم ہے اور ہرجان قیمتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی زندگی بچانے کیلئے بھر پور اور سخت اقدامات کیے گئے اور وبا کو کنٹرول کرنے میں اور لوگوں کی جانیں اور زندگی بچانےمیں اہم کامیا بیاں حاصل کی گئیں جس کی عالمی برادری اور عالمی ادرارے بھی معترف ہیں ۔
عوامی جمہوریہ چین عالمی سطح پر بھی اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کےحصول اور عمل درآمد میں اپنا مثبت اور موثر کردار ادا کر رہا ہے ۔ چین عالمی اداروں اور دیگر علاقائی تنطیموں میں اپنا ذمہ دارانہ کرار بخوبی نبھا رہا ہے ۔دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو، افریقی ممالک کے ساتھ تعاون، آسیان، آرسی ای پی ، یورپی یونین کےساتھ تعاون کا معاہدہ وہ مختلف پلیٹ فارمز ہیں جن کے ذریعے چین عالمگیر ترقی اورپوری دنیا کے عوام الناس کی خوشحالی کیلئے سرگرم عمل ہے۔
حال ہی میں چین نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پانی کی قلت کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد کے تحت پانچ کنویں عطیہ کیے جس سے مقامی لوگوں کے لیے پینے کی پانی کی کمی کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے ۔
اس کے علاوہ چین نے نیپال ، موزمیبق ،نمیبیا اور دیگر ممالک میں اسکولز تعمیر کیے ہیں اور کیوبا اور کرغزستان سمیت کئی ممالک میں بجلی کی تنصیبات نصب کی ہیں ۔چین دوسرے ممالک کی مدد سے اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کے لیےمسلسل اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے ۔