سنکیانگ کے مقامی لوگوں نے مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس رد کر دیں

0

سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کے دفتر اطلاعات  نے  حال ہی میں سنکیانگ امور سےمتعلق ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا ۔ پریس کانفرنس میں متعدد مقامی افراد نے  اپنے حالاتِ زندگی اور روزگار سے متعلق تفصیلات بیان کیں اور مغربی ذرائع ابلاغ کی ” اقلیتوں کے رسوم و رواج اور مذہبی عقائد پر پابندی” اور ” ان پر دباو ”  جیسی من گھڑت رپورٹس کی تردید کی ۔

پچاس سالہ عبد العلیم جوپائی ، لو پو کاونٹی سے تعلق رکھتے ہیں  اور ایک سیمنٹ پلانٹ میں کام کرتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں  تین  مختلف  کارخانوں میں کام  کیا ہےلیکن رسم و رواج اورمذہبی عقائد  پر پابندی یا کسی بھی قسم کے دباو کے بارے میں انہوں نے نہ دیکھا نہ سنا ۔  اس کےبرعکس تمام ادارے  یہاں آباد تمام قومیتوں اور ان کے رسوم ورواج کا  احترام کرتے ہیں ،مثال کے طورپرپچھلے سال عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر ہر مسلم کارکن کو خاص طور پر آٹھ سوسےایک ہزار یوان تک دیئے گئےاور جشن منانے کے لیے دلچسپ تفریحی پروگرامز کا اہتمام بھی کیا ۔

ہمارا ماننا ہےکہ محنت ، خوشحالی کا باعث ہے ،سنکیانگ کےمحنت کش

دل نور امرنیاز،دو بچوں کی ماں ہیں اور سنکیانگ  کی لوپو کاونٹی میں رہتی  ہیں۔ پچھلے سال ان کو اپنےآبائی شہر کے ایک کوآپریٹو ادارے میں ملازمت ملی تھی ۔ حالیہ دنوں کچھ مغربی اداروں کی جانب سےبیان بازی کی گئی کہ سنکیانگ میں خواتین سے جبراً کام کروایا جاتا ہے۔اس حوالے سے دل نور نے کہا کہ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کمائی ہوئی تھوڑی رقم بھی بادشاہوں کے عطا کردہ پہاڑوں سے زیادہ برکت والی ہوتی ہے ۔ جو افراد ایسی افواہیں پھیلاتے ہیں میں ، ان سےپوچھنا چاہتی ہوں کہ جو لوگ اپنےہاتھوں سے محنت کر کے ایک خوشحال زندگی ممکن بنا رہے ہیں کیاوہ غلط کر رہے ہیں؟ جن عورتوں کے بچے ہوتے ہیں کیا وہ کام کریں تو غلط بات ہے؟ جبری مزدوری کا کوی تصور یہاں پر نہیں ہے۔  
قلب نور قربان سنکیانگ کے شہر ترپن میں ایک قالین ساز کارخانے کے مالک ہیں  ۔ان کی کمپنی میں۷۰ سے زائد افراد کام کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ محنت کر کے کمانا ہر ایک آدمی کا بنیادی حق ہے۔ مستقبل میں ہم اپنی کمپنی کو مزید بڑھاناچاہتے  ہیں ۔اس سے روزگار کے مواقع کے نئےمواقع بھی پیداہوں گے اورسنکیانگ میں آباد مختلف قومیتوں  کی روایتی ثقافت کوبھی فروغ حاصل ہوگا ۔ 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here