چین کی بڑی معیشت سال2020 میں مضبوط شرح نمو کے ساتھ ابھرتے
ہوئے ایک سو ٹریلین یوان کی حدوں کو چھو رہی ہے۔اس کی بنیادی وجوہات
میں ایک تو وبائی صورتحال پر انتہائی قلیل مدت میں قابو پانا اور دوسرا انسداد
وبا کے موئثر اقدامات کے تحت اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری عمل کی
بتدریج بحالی ہے۔اس کے برعکس دنیا کے اکثر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر
ممالک میں وبا کی سنگین صورتحال کا غلط اندازہ لگایا گیا ، جس کے نتیجے
میں معاشی سرگرمیاں اورنظام زندگی برے طریقے سے متاثر ہوئے۔
وبا کے باعث درپیش اقتصادی بحران میں چین کی جانب سے ایسےاقدامات
سامنے آئے جو عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں چین کے بڑے اور ذمہ دارانہ
کردارکے مظہر ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے تحت جاری منصوبہ
جات کا تسلسل ، حال ہی میں دستخط شدہ علاقائی جامع اقتصادی شراکت (آر
سی ای پی) معاہدہ اور سرمایہ کاری سے متعلق چین-یورپی یونین جامع معاہدہ
(سی اے آئی)، یہ سب عالمی سطح پر چین کے قائدانہ کردار کو اجاگر کرتے
ہیں۔ ایسے اقدامات نہ صرف عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ میں
مددگار ہیں بلکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین دنیا کو مزید خوشحال اور
سازگار بنانے میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں
ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین نے بی آر آئی فریم ورک کے تحت 2013 سے
2018 کے درمیان متعلقہ ممالک میں 90 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ
کاری کی ہے جس سے بی آر آئی سے وابستہ ممالک کی اقتصادی سماجی
ترقی میں نمایاں مدد ملی ہے۔ پاکستان میں سی پیک منصوبہ جات کی بات کی
جائے ،افریقی ممالک میں انفراسٹرکچر منصوبے ہوں یا پھر سری لنکا میں
ہمبانٹوٹا بندرگاہ جیسے منصوبے ، ان کی بدولت یہ ممالک ترقی کی راہ پر
گامزن ہو رہے ہیں۔
مغربی بے بنیاد بیانیے کے برعکس کہ بی آر آئی ایک “قرضوں کا جال ہے “
چین نے متعلقہ ممالک میں بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کی ترقی سےمقامی
معاشی نمو کو فروغ دیاہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کئی ممالک کو بیرونی
قرضوں کی ادائیگی میں مدد ملی ہے۔ بی آر آئی کے تحت سرمایہ کاری اور
تجارت کے مثبت ثمرات تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری جانب بی آر آئی
میں شریک ممالک نے 2013 سے 2019 کے درمیان چین میں 40ارب ڈالرز
کی سرمایہ کاری کی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اشتراکی ترقی کا داعی
ہے اور ترقی کے سفر میں تمام ممالک کو یکساں مواقع فراہم کرتے ہوئے
انہیں چین کے ترقیاتی ثمرات سے مستفید کرنا چاہتا ہے۔
نومبر 2020میں طے پانے والے آر سی ای پی معاہدے نے ایشیا بحر الکاحل
میں چین کی اہمیت کو مزید بڑھایا ہے۔ یہ پیش رفت اس لحاظ سے بھی اہم ہےکہ چین کی جانب سے ملک میں “دوہری گردش” پرمبنی ترقی کا ایک نیا
فارمولہ وضع کیا گیا ہے جو ملکی اور بیرونی منڈیوں دونوں کے مفادات کا
احاطہ کرتا ہے۔لہذا اس معاہدے سے وابستہ ممالک چینی معیشت کی ترقی سے
بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔
اسی طرح 2020کے اواخر میں چین اور یورپی یونین کے درمیان سرمایہ
کاری معاہدے سے متعلق پیش رفت کو بھی عالمی سطح پر بھرپور سراہا گیا
ہے۔ دونوں فریقوں کے مابین سات سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کا
ٹھوس نتیجہ برآمد ہوا جس سے عالمی اقتصادی امور کی بہتر گورننس اور
معاشی مسائل کے حل میں نمایاں مدد ملے گی۔چین اور یورپی یونین دنیا کی
بڑی معاشی اکائیاں ہیں جن کا عالمی معاشی ترقی میں اہم کردار ہے۔یہ بات اہم
ہے کہ دونوں فریقوں نے دنیا کو آپسی تنازعات سے مناسب طور پر نمٹنے کا
مثبت پیغام دیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ عالمگیریت کے دور میں
یک طرفہ پسندی اور تجارتی تحفظ پسندی کسی کے مفاد میں نہیں ہے،
اشتراکی ترقی کے نظریے سے جڑے رہتے ہوئے یکساں اور پائیدار اقتصادی
ترقی ہر ایک کے مفاد میں ہے۔