رواں سال چین میں غربت کے خاتمے کا سال ہے ۔ مقررہ مدت سے دس سال پہلے ہی اس ہدف کی تکمیل کے بعد اب اس سے آگے کیا؟ اس سے آگے کا مرحلہ ترقی کے اس سفر میں پہلے سے زیادہ باشعور اور ہنر مند افراد تیار کرنا ہے۔ اسی لیے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ۔ پہلے تو ان علاقوں میں شاہراہیں ،بنیادی تنصیبات اور انٹرنیٹ کی سہولیات پہنچا کر زراعت و مویشی بانی کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا معاشی حالت سدھری،جسمانی صحت بہتر ہوئی تواب مرحلہ ہے صحت مند اذہان کی آبیاری کا۔ اس وقت خاص طور پر جنوب مغربی چین کے تبت خوداختیار خطے میں نو ملین افراد کے لیے ، مفت تعلیم ، خوراک اور تعلیمی مواد فراہم کیا جا رہا ہے۔ چونکہ اس سال موسم خزاں کے سمسٹر میں تعلیم کے لیے مالی اعانت میں اضافہ ہوا ہے ، اس وجہ سے اسکول میں دیا جانے والے کھانے کا معیار بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ تبت خودمختار خطے کے لیے مالی اعانت کی ترجیحی تعلیمی سبسڈی پالیسی میں طلبا کی ٹیوشن فیس سمیت پری اسکول سے لے کر سینئر ہائی اسکول تک خوراک اور سٹیشنری کا تمام انتظام شامل ہے ۔ والدین بس اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کروائیں اور باقی تمام معاملات کی طرف سے بے فکر ہو جائیں۔
مقامی محکمہ تعلیم کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ، اس علاقے میں اسکول سالانہ4200 یوآن فی کس کی سبسڈی فراہم کرتے ہیں جو 1985 کے مقابلے میں 14 گنا زیادہ ہے۔
چینی حکومت اس خطے میں مفت تعلیم کی فراہمی کے لیے 20 ارب یوآن سے زائد رقم خرچ کر چکی ہے ، جس سے تقریبا نو ملین طلباء کے لئے تعلیم تک رسائی ممکن ہوئی ہے ۔
1951 میں یہاں ، اسکول جانے والے بچوں کے داخلے کی شرح دو فیصد سے کم تھی جبکہ ناخواندگی کی شرح 95 فیصد تک تھی۔آج کے اعدادو شمار کے مطابق ، تبت میں اب پری اسکول میں 84.42 فیصد، پرائمری اسکول میں99.71 فیصد، سینئر ہائی اسکول میں 86.62 فیصد اور کالج یا یونیورسٹی میں 47.65 فیصد طلبا ہیں
جامعات میں تبتی طلباء کی تعداد 2012 میں 33000 تھی جو کہ 15 فیصد بڑھ کر 2019 میں 38000 ہوگئی جبکہ مڈل اسکولوں کی تعداد اسی عرصے میں 17 فی صد بڑھی۔
غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کرنا آسان کام نہیں تھا ، لیکن لوگوں کو پھر سے اسی کھائی میں نہ گرنے دینا ایک اور مرحلہ ہے۔ چینی حکومت دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعلیم اور ہنر کے فروغ کواہمیت دے رہی ہے تاکہ آنے والے تیز رفتار دور میں ترقی کے لیے نوجوانوں کی ذہانت و صلاحیت کو مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کیا جائے۔