” ملٹی ٹاسکنگ ” چین کی ترقی کا راز ہے

0

چین اس وقت ترقی اور کامیابی کے ساتھ تحقیقات کی اس منزل پر کھڑا ہے کہ جہاں سے آگے تحقیق ، دریافت اور نئی منزلوں کی ایک نئی سمت نئی منزلوں کی جانب اشارہ کر رہی ہے ۔ اگر ایک طرف چین نے اس سال مقررہ ہدف سے دس سال قبل ہی ملک بھر سے غربت کا خاتمہ کیا ہے اور اس ‘ معجزے ” سے دنیا کو حیران کردیا ہے تو دوسری طرف وبا کی اچانک آن پڑنے والی افتاد کا مقابلہ کرنے کے لیے  جس دور اندیشی اور سخت حکمتِ عملی کو اختیار کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انتظام و انصرام کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کی ایک مثال قائم کی ہے اور ان دونوں معانلات میں ناصرف چین نے اپنے ملک میں مثالی کام کیے ہیں وہیں دوسرے ممالک کے ساتھ بھی اپنے تجربات بانٹے ہیں اور ہر ممکن مدد فراہم کی ہے ۔ بہترین حکمتِ عملی ، دور اندیشی اور ” ملٹی ٹاسکنگ” ہی کا نتیجہ ہے کہ چین نے ناصرف اس وبا پر موثر انداز میں قابو پایا ہے بلکہ معاشی بحالی کا کام بھی ساتھ ہی شروع کر دیا اور آج عالمی معیشت کے گراف پر چین کی معیشت وہ واحد معیشت ہے جس کی شرح نمو مثبت ہے ۔ 

غربت کا خاتمہ ، وبا پر قابو اور معاشی بحالی کے ساتھ ساتھ  معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کی رونق بھی بحال ہوئی اور چین نے بین الاقوامی ایکسپوز کا بھی انعقاد کیا۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ ‘ ستاروں سے اگے جہاں اور بھی ہیں ” تو اسی کے مصداق چین نے زمین کے ساتھ ساتھ خلا میں بھی اپنی تحقیق اور جستجو کا سفر جاری رکھا اور سمندر کی تہوں میں بھی جدت اور تخلیق کا ہاتھ تھامے نئی منازل کی طرف سفر میں قدم آگے بڑھائے ۔ نومبر ۲۰۲۰ چین کے خلائی منصوبوں میں ایک بڑی پیش رفت کا گواہ ہے ۔ چوبیس نومبر کو چین نے چاند پر تحقیق  کے لیے چھانگ جینگ فائیو کیریئر راکٹ  کے ذریعے  چھانگ عہ ۵ ڈیٹیکٹر  کو کامیابی کے ساتھ لانچ کیا، جس سے چاند کی سطح سے نمونے لے کر واپس آنے والے چین کے اس پہلے مشن کا آغاز ہوا ۔ امریکہ اور روس کے بعد چین دنیا کا تیسرا ملک ہے کہ جو چاند پر سے نمونے جمع کر کے واپس زمین پر لائے گا ، چھانگ عہ فائیو  کی چاند کی اس سطح پر اترنے کی  ایک اہم وجہ  یہ ہے کہ یہاں پائی جانے والی چٹانوں اور مٹی کی تاریخ  اگرچہ ایک ارب بیس کروڑ سال قدیم ہے لیکن یہ امریکی انسان بردار مشن اپولو کی تحقیقی سائٹ پر پائی جانے والی چٹانوں اور مٹی  کی نسبت قدرے نئی  ہے ۔ یہاں سے حاصل شدہ نمونوں پر تحقیق کے ذریعے یہ توقع ہے کہ  سائنسدان  چاند پر آتش فشانی سرگرمی کی تاریخ کے بارے میں تفصیل سے جان سکیں گے ۔ مزید یہ کہ سائنسدان چاند  کی ساخت ، ارتقاء اور نظام شمسی کی تاریخ کے بارے میں بھی زیادہ بہتر معلومات حاصل کر سکیں گے۔

چھانگ عہ فائیو کی زمین پر واپسی کے دوران، اسے آخری چیلنج درپیش ہوگا کیونکہ واپسی پر  اس کی رفتار 11 کلومیٹر فی سیکنڈ کی دوسری cosmic speed  کے قریب ہے۔ تاہم عام طور پر خلائی جہاز کی زمین کے نچلے مدار سے واپس آنے کی رفتار زیادہ تر پہلی cosmic speed آٹھ  کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ اس لیے سائنس دانوں نے جدید  semi-ballistic jump re-entry and return پلان پیش کیا تاکہ زمین پر اترتے ہوئے اس کی رفتار کو کم کرکے چھانگ عہ فائیو کی کامیاب اور محفوظ واپسی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ چین کے چاند پر تحقیق کے منصوبے کا آغاز جنوری دو ہزار چار میں ہوا۔ اس کے بعد، چین نے چھانگ عہ ون ، ٹو ، تھری اور فور سمیت کل پانچ مشن مکمل کیے ہیں۔موجودہ مشن چھانگ جینگ سلسلہ وار کیریئر راکٹ کی  تین سو ترپن وین لانچنگ ہے۔

 دوسری طرف سمندر میں انتہائی گہرے سمندر میں چلنے والی آبدوز نما ، ” سٹرائیور” سمندر  کی تہہ میں دس ہزار میٹر کی گہرائی  پر کامیاب تجربات  کے بعد  پانی کی سطح پر واپس آ چکی ہے ۔  اس کامبابی پر  چینی صدر مملکت شی جن پھنگ نے اٹھائیس تاریخ کواپنے تہنیتی پیغام  میں  اس منصوبے میں شریک تمام سائنسدانوں اور تیکنیکی ماہرین کو مبارک باد  پیش کرتے ہوئے کہا کہ “سٹرائیور” کی تیاری اور سمندری آزمائش  اس بات کی علامت  ہے کہ چین  سمندر  کے گہرے حصے میں سائنسی تحقیق کی صلاحیت رکھتا ہے ۔یہ  سمندری ہائی ٹیک کے میدان میں چین کی جامع اور بھرپور صلاحیتوں کا ثبوت ہے اور تکنیکی جدت کے لئے ایک نئی مثال بھی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین بیک وقت کئی شعبہ جات میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے اگر ہم کہیں کہ چین ایک کامیاب ” ملٹی ٹاسکر ” ہے تو غلط نہیں ہوگا اور چین کی پالیسی سازی اورر حکمتِ عملی کا یہی پہلو چین کو ترقی کے ایک نئے بامِ عروج تک لے جانے کا باعث ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here