آئیں مل کر دنیا کے بہتراورروشن مستقبل کی تعمیر کریں

0

پھولوں کے شہر چین کے اہم اقتصادی  علاقے گریٹر بے ایریا کے  صوبہ گوانگ ڈونگ کے دارالحکومت گوانجو کے خوشگوار موسم میں انڈر سٹینڈ نگ چائنا کانفرنس ۲۰۲۰یعنی  چین کو سمجھنا کی شانداز افتتاحی تقریب  بیس  نومبر کو منعقد ہوئی ۔چینی صدر شی جن پھنگ نے اس کانفرنس کے نام اپنے تہنیتی خط میں کہا کہ دنیا اس وقت صدی کی سب سے  بڑی تبدیلیوں کا سامنا کر رہی ہے ۔ اچانک پھوٹنے والی وبا نے ایک بار پھر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بنی نوع  انسان کا مستقبل ایک دوسرے سے  منسلک  ہے ۔ آج کے دور میں پیچیدہ چیلنجز  کا مقابلہ کرنے کے لیے اور آگے بڑھنے کے لیے ، انسان کو پہلے سے کہیں  زیادہ اتحاد و تعاون کی ضرورت ہے۔ صدر شی جن پھنگ نے اپنے خط میں بین الاقوامی تعاون  کو بڑھانے اور کھلے پن کو جاری رکھنے کے چین کے غیر متزلزل عزم کا بھی اظہار کیا ۔یہ اس کانفرنس کا پانچواں شمارہ ہے جو آن لائن اور آف لائن ۲۰ سے ۲۲ نومبر تک  منعقد ہورہاہے۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے چھ سو سے زائد ملکی اور غیر ملکی مندوبین شرکت کررہے ہیں جن میں سابق سربراہان مملکت، ممتاز سیاستدان ، مدبرین اورانٹرپرینورز شامل ہیں۔  

 چین دنیا کے اہم اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے تواتر کے ساتھ اس طرح کی کانفرنسزاور سرگرمیوں  کا انعقاد کرتاہے اور مختلف  شعبوں اور میدانوں میں دنیا کے ساتھ نہ صرف  چین کے  تجربات ،تصورات اور مستقبل کا لائحہ عمل شئیر کرتاہے بلکہ عملی تعاون بھی کرتاہے ۔ صرف نومبر میں دو بڑی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاچکا ہے۔ چین کی تیسری بین الاقوامی درآمدی ایکسپو چین کے شہر شنگھائی میں کامبیابی سے منعقد ہوئی ہے۔ اسی طرح پندرہ نومبر کوجامع علاقائی اقتصادی شراکت داری معاہدے پر آسیان کے دس رکن ممالک، چین ،جاپان، جنوبی کوریا ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیانے دستخط کیے۔

وبا کے بعد دنیا کی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اورتبدیل ہوتی جارہی ہے اکثر ممالک کی معیشتیں اور صحت کے نظام وبا کے سامنے کمزور ہوگئے ہیں۔ چیلنج اتنا بڑا ہے کہ زیادہ تر ممالک اپنے آپ تک سکڑ گئے ہیں۔ ایسے میں کچھ ممالک کے بعض سیاستدان  یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کی طرف چلے گئے ہیں ۔دنیا کے ایک بڑے اور اہم ملک نے کووڈ ۔۱۹ کے دوران نہ صرف باقی دنیا سے آنکھیں چرا لی ہیں بلکہ خود بھی ابھی تک اس وائرس پر قابو پانے میں ناکام رہاہے ۔  ایسے میں ضرورت اس بات کی تھی  کہ عالمی سطح پردیگر بڑے اور اہم  ممالک  ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور اور اس مشکل صورتحال سے دوچار ممالک کا  سہارا بنے ۔ یہ کردار چین پوری ذمہ داری  کے ساتھ ادا کررہاہے ۔ کووڈ ۔۱۹ کا چیلنج بہت بڑا تھا چین اگر اس کیخلاف کمزور پڑ جا تا تو پوری دنیا کیلئے مشکلات میں کافی اضافہ ہوجاتا کیونکہ عالمی سپلائی چین اور دنیا کی معیشت میں چین کا ایک  کلیدی مقام اور کردار ہے۔ تاہم چین نے نہ صرف وبا پر قابو پایا بلکہ اپنی معیشت کو دوبارہ بحالی کے راستے پر گامزن کیا ۔چین کو سمجھنا اسلئے ضروری ہے کیونکہ چین عالمی سطح پر اہم کردار ادا کررہا ہے اور مستقبل میں بھی ادا کرنا چاہتاہے ۔

کانفرنس کے ابتدائی سیشن میں چین کے اعلی عہدیداروں نے صدر شی جن پھنگ کے دنیا کے ساتھ تعاون جاری رکھنے  اور مشکلات پر قابو پانے کیلئے  ساتھ چلنے  کے عزم کا اعادہ کیا ۔ مقررین نے چین کے اگلے یعنی  چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے مرکزی نکتے جدیدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جدیدیت کا مطلب صرف طبعی جدیدیت نہیں ہے بلکہ انسانوں پر سرمایہ کاری کرکے ان کو جدت سے آراستہ کرنا ہے ۔ اور چین کا   پوری دنیا کے انسانوں کیلئے جدیدیت کا پیغام ہے۔ چین معاشی لحاظ سے  دوہری گردش کے ماڈل کے تحت دنیا کی معیشت کو سہارا دے گا ،  مستقبل میں مزید کھلے پن کا مظاہرہ کرے گا، دنیا کے ساتھ مزید تعاون کرے گا تاکہ بنی نوع انسان کا ہم نصیب معاشرہ تشکیل پاسکے۔ مقررین نے چین کے انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کے عزم کو بھی دہرایا ۔ اور کہا کہ صنعت کاری اور ماڈرنائزیشن اپنے ساتھ ماحولیاتی چیلنجز بھی لے کر آئی ہیں لہذا اس طرف بھی  دنیا کو توجہ دینے کی ضرروت ہے۔ چین اس سلسلے میں  مستقبل میں ٹھوس منصوبہ بندی رکھتاہے ۔چین ایک جدید سوشلسٹ ملک بنے گا اور انوویشن  اور ترقی کے راستے پر گامزن رہے گا۔

عالمی رہنماوں نے کانفرنس سے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ اس وقت دنیا کو تنازعات کی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے ، ساتھ چلنے اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے  چین کی تعریف کرتے ہوئے کثیر الجہتی پر زور دیا اور امریکہ سے یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کا رویہ ترک کرنے اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی اپیل کی  تاکہ دنیا کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جائے ۔ مقررین جن میں سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براون ، انڈونیشیاکی سابق صدر میگاواتی سوئیکارنو ، میکسیکو کے سابق صدرارنسٹو زڈیلو، اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ولادمیر نورو شامل تھے نے  کووڈ ۔۱۹ سے پیداشدہ صورتحال پر قابو پانے اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عالمی اداروں کی مضبوطی پر زور دیا ۔ شنگھانی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ جس طرح چین نے ۲۰۰۸  کے گریٹ اکنامک دپریشن کے وقت دنیا کو مشکل سے نکالنے میں مدد کی تھی اسی طرح آج بھی کووڈ۱۹ سے نکالے گا ۔ انہوں  دنیاکو درپیش مشکلات  پر قابو پانے شنگھائی تعاون تنظیم کے مقصد یعنی شنگھائی روح کو اپنانے  پر زور دیا جو مشترکہ تعاون ،اتحاد اور بات چیت پر زور دیتی ہے۔ 

گورڈن براون نے کہا کہ  عالمی چیلنجوں کے مقابلے کیلئے چین، یورپ اور امریکہ کی بہت  اہمیت ہے ۔انہوں نے غربت کے خاتمے ، کوڈ۔۱۹ پر قابو پانے اور تعلیم کے میدان میں چین کی کامیابیوں اورخدمات  کی تعریف کی۔  انہوں نے خاص طور پر امریکہ اور چین کے تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کا اچھا ہونا دنیا کے بہتر مستقبل کیلئے بہت اہم ہے۔  انہوں نے کہا کہ ہم اس صدی کے  تیسرے عشرے کی دہلیز پر کھڑے ہیں یہ عشرہ دنیا کو توڑ بھی سکتاہے اور جوڑ بھی سکتاہے۔ ایسے میں بڑے ممالک کی ذمہ داری بہت بہت بڑھ گئی  ہے ۔

انڈونیشیا کی سابق صدر نے انڈونیشیا کی مشہور کہاوت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تنوع میں ہم آہنگی پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔ مختلف ممالک کو ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کا احترام  کرنا چاہیے اور دنیا کی خوشحالی کی خاطر ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔

کووڈ۔۱۹ وبا پر قابو پانا ہو، دنیا کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنا ہو، غربت کا خاتمہ ہو، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا ہو چین ہرقسم کے  عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے واضح  نظریات اور لائحہ عمل رکھتاہے ۔ چین  تعاون  ، کثیر الجہتی، باہمی اشتراک ، عوام  پر سرمایہ کاری اور بات چیت  کے رویے اور حکمت عملی  سے اپنے ملک اور عوام کو ترقی ، امن اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کرچکا ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب مستقبل کے تصور کے تحت پوری دنیا کے انسانوں  کیلئے یہی روشن مستقبل چاہتاہے ۔ انڈرسٹینڈنگ چائنا کانفرنس چین کے اسی عزم اور  خواہش کی تکمیل کیلئے دنیا کے ساتھ مکالمے کی ایک اور کاوش  ہے۔     

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here