تیسری چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو زور و شور سے جاری ہے۔ اس ایکسپو میں نہ صرف حیرت انگیز “جدید ٹیکنالوجیز” موجود ہیں، بلکہ پوری دنیا سے نت نئے کھانے اور دستکاریاں بھی موجود ہیں ، جن میں سے بیشتر ترقی پزیر ممالک اور سب سے کم ترقی یافتہ ممالک سے آئی ہیں۔ چائنا میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے زعفران کے افغان تاجر نے کہا کہ وہ پر امید ہیں کہ انہیں یہاں بڑے گاہک ملیں گے۔اقوام متحدہ اور عالمی تجارتی تنظیم کے تحت قائم مشترکہ ادارے ،” انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر” کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایلانچا گونزالیز نے کہا کہ چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو دنیا کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کو چینی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ موجود ہ ایکسپو کے دوران 30 کم ترقیاتی یافتہ ممالک اپنی مصنوعات پیش کر رہے ہیں۔ ان ممالک کی اشیا کی نمائش کا رقبہ 4000 مربع میڑ سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے وقت میں بہت اہم ہے جب کووڈ-19 کی وبا نے عالمی معیشت اور تجارت کو اپنے گہر ے دباؤ میں لے رکھا ہے۔
چین کی ان کوششوں سے عالمی ترقی کے عدم توازن کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی ، تاکہ پوری دنیا میں کوئی “فراموش کونا” نہ رہے اور بالاخر مشترکہ ترقی کو حاصل کیا جاسکے۔ کیا یہ بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا ایک واضح عمل نہیں ہے؟
دنیا نےدیکھا ہے کہ چین نے وبا کی ویکسین فراہم کرنے میں ترقی پزیر ممالک کو ترجیح دینے کا عہد کیا ہے ، یا سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کو مسلسل تین درآمدی ایکسپو میں شرکت میں مدد فراہم کی ہے۔ چین ایک بڑے ملک کی حیثیت سے عملی اقدامات کے ذریعے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کررہا ہے ۔
چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو جیسے پلیٹ فارم کی مدد سے ، چین اپنی گھریلو مارکیٹ کو عالمی منڈی ، مشترکہ مارکیٹ اور ہر ایک کے لئے مارکیٹ بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ ایک ایسا چین جو مشترکہ کھلے پن اور مشترکہ ترقی کو فروغ دیتا ہے ، وہ دنیا کے لئے ہمیشہ سے ایک موقع اور امید رہا ہے۔