چینی کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں مرکزی کمیٹی کے پانچویں کل رکنی اجلاس میں چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران اقتصادی اور سماجی ترقی کے “رہنما نکات” کی وضاحت کی گئی ہے اور آئندہ پندرہ سالوں کے ترقیاتی اہداف کے حصول کےلیے روڈ میپ کا تعین کیا گیا ہے۔ اس سے چین کی اعلیٰ سطحی حکمت عملی میں واضح تسلسل اور مستقل مزاجی کا اظہار ہوتا ہے جس کا مقصد ملک کو درپیش مسائل کو حل کرتے ہوئے ملکی ترقی کے حقیقی تقاضوں اور عوام کی بلند توقعات کو پورا کرنا ہے۔
دو نومبر کو بیجنگ میں منعقدہ مرکزی کمیٹی کے تحت جامع اصلاحاتی کمیٹی کےاجلاس میں چینی صدر مملکت شی جن پھنگ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ چین چودہویں پنج سالہ منصوبے کے دوران ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گا اور اصلاحات ایک نئے نقطے تک پہنچ جائیں گی۔ اصلاحات اور ترقی کے گہرے انضمام کو فروغ دیا جانا چاہیئے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ چین میں جدت کاری کی طویل مدتی ترقی کے دوران چینی قیادت کی دانشمندی اور استقامت بھرپور طور پر ظاہر ہو گی۔
چین کے درمیانے اور طویل مدتی منصوبوں میں استحکام ، دور اندیشی اور ترقیاتی منصوبوں کا تسلسل بنیادی اوصاف ہیں ، اسی باعث کووڈ -۱۹ کی وبا کے پھیلاو ، عالمی معاشی کساد بازاری اور پیچیدہ بین الاقوامی صورتحال کے باوجود چین اعلی معیار کی ترقی ، ترقیاتی نمونوں میں تبدیلی اور معاشی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ایک نئی ترقیاتی ساخت کی جستجو کر رہا ہے جبکہ دو ہزار پینتیس تک چین ایک سوشلسٹ جدت کاری کا حامل طاقتور ملک بن جائے گا ۔
چین کو نہ صرف دیرپا موئثر منصوبہ سازی میں کمال حاصل ہے بلکہ ترقیاتی امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لئے جدید اور بروقت اقدامات اٹھانے میں بھی چین کا ثانی کوئی نہیں ہے۔ ٹھوس پالیسی سازی چینی حکومت کی ایک نمایاں صلاحیت ہے ۔ آئندہ پانچ سالوں میں جدت ” مرکزی کردار ” ادا کرے گی ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خودانحصاری کو قومی ترقی کی اسٹریٹجک بنیاد کے طور پر لیا جائے گا ۔ علاوہ ازیں چین اپنی اعلی معیار کی صنعتکاری کو فروغ دے گا، سائبر اسپیس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں اپنی طاقت کو آگے بڑھائے گا ، ایک مضبوط مقامی منڈی تشکیل دے گا ، اعلی درجے کی سوشلسٹ معاشی منڈی کو آگے بڑھانے کے لئے اصلاحات کو وسعت دے گا ، سبز اور کم کاربن والی معاشی ترقی کو تیز کرے گا ۔ یہ تمام اقدامات اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ چین عالمی ترقیاتی چیلنجوں سے نمٹتے ہوئے ایک بہتر مقام حاصل کرے گا۔
اعتماد اور صلاحیت کے علاوہ چین کے پاس تمام لازمی وسائل بھی دستیاب ہیں ۔رواں سال کے آخر تک چین کی جی ڈی پی ایک ہزار کھرب یوآن سے زائد رہنے کی توقع ہے ۔چین کے پاس وافر انسانی وسائل موجود ہیں۔ دو ہزار انیس تک چین میں پیشہ ور افراد کی تعداد نواسی کروڑ چونسٹھ لاکھ تھی۔چین ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے ساتھ ایک وسیع منڈی ہے جس میں چالیس کروڑ افراد متوسط طبقے سے ہیں ۔ کووڈ –۱۹ کے خلاف جنگ میں فتح سے چین کی حکمرانی کی صلاحیتوں اور جامع قومی طاقت کا بھرپور مظاہرہ ہوا ہے ۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چین ایک مستحکم ملک ہے اور عوام متحد ہے ۔
آبادی کے اعتبار سے چین جیسے بڑے ملک میں جدت کاری کو عمل میں لانا یقیناً ایک آسان کام نہیں ہے ۔ لیکن ماضی میں چین کی کامیابیوں اور اس کی طویل مدتی خوشحالی سے واضح عکاسی ہوتی ہے کہ چین اپنے اہداف کی تکمیل کے لیے اعتماد ، صلاحیت اور لازمی وسائل رکھتا ہے ۔