آٹھ اکتوبر کو ، چین باضابطہ طور پر “نوول کورونا وائرس کی ویکسین کے عملی منصوبہ” میں شامل ہوا ۔ اس منصوبے میں چین کی شمولیت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنی اور چین کےاس اقدام کی شاندار الفاظ میں تحسین کی گئی۔
برطانوی اخبار “گارڈین” نے اطلاع دی ہے کہ “نوول کورونا وائرس کی ویکسین کا عملی منصوبہ” اس بات کو یقینی بنائے گا کہ “کچھ ممالک کے تمام لوگوں کے بجائے تمام ممالک میں کچھ لوگوں کو” ویکسین مل پائے ۔ چین کی اس منصوبے میں شمولیت وبا سے لڑنے کے لئے عالمی یکجہتی میں زیادہ اعتماد کا باعث ہے جس سے چین کا عالمی تشخص مزید بلند ہوا ہے۔ چین ان ممالک میں سب سے بڑی معیشت ہے جو “ویکسین نیشنلزم” کی مخالفت کرتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے اطلاع دی ہے کہ چین میں کووڈ-۱۹ پھیلنے کے بعد ، حکومت نے نہ صرف اندرون ملک وائرس کے پھیلاؤ پر فوری طور پر قابو پایا ، بلکہ بیرون ملک ماسک ، طبی ساز وسامان اور دیگر سامان عطیہ کیا جس سےعالمی سطح پر چین کی ساکھ مزید بہتر ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق چین کی جانب سے تیار کی جانے والی متعدد ویکسینوں کی جانچ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔مذکورہ منصوبے میں چین کی شمولیت سے دنیا کے ساتھ “وبا کے خلاف متحد” ہونے کے چین کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔
بلومبرگ نیوز ویب سائٹ نے اطلاع دی ہے کہ حالیہ دنوں میں ، چین مثبت اشارے بھیج رہا ہے کہ وہ ڈبلیو ایچ او کی سربراہی میں “نوول کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے عملی منصوبہ” میں حصہ لے گا۔ چین کی شراکت داری نے امریکی حکومت کی وجہ سے عالمی سطح پر صحت کی قیادت میں پائے جانے والے خلا کو پر کیا ہے۔