معمولاتِ زندگی کی بحالی کے لیے پاکستان نے کیا کیا ؟ سی آر آئی اردو کا تبصرہ

0

پاکستان میں اگست دو ہزار بیس میں موٹرگاڑیوں کی فروخت  11678  رہی ،جو  پچھلے سال کی اسی مدت سے سولہ فیصد زائد ہے۔وبا پھوٹنے کے بعد موٹرگاڑیوں کی فروخت میں یہ  پہلا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ موٹر گاڑیوں کی صنعت پاکستان کی اہم صنعتوں میں شامل ہوتی ہے اور اس صنعت کی بحالی پاکستانی معیشت کی بتدریج بحالی کی علامت بھی ہے۔ا س کے ساتھ ساتھ  پاکستان کے مختلف علاقوں میں عوامی زندگی بھی بتدریج معمول پر واپس لوٹ رہی ہے۔دس اگست سے حکومت نے انسدادِ وبا کے اقدامات کو مزید نرم بنانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت تھیٹرز، سینیما گھروں اورریستوران وغیرہ کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔اکتوبر میں ریلوے اور ہوائی سفرسے پابندی بھی اٹھا لی جائے گی ۔

معیشت اور معمولاتِ  زندگی کی بحالی تب ہی ممکن ہوتی ہے جب وبا پر موثر انداز میں قابو پایا جائے ۔ وبا پھوٹنے کے بعد ،پاکستان میں اسمارٹ لاک ڈاون اختیار کیا گیا  جس کے تحت پورے ملک کی بجائے صرف ان علاقوں کولاک ڈاون کیا گیاجو ” ہاٹ سپاٹ” تھے یعنی جہاں زیادہ  کیسز رونما ہوئے۔اس اقدام سے  پاکستان میں روزگار کی فراہمی اور وبائی صورتحال سے نمٹنے کو مربوط اور متوازن بنایا گیا۔

پاکستان کی اسمارٹ لاک ڈاون پالیسی کو عالمی ادارہ صحت نے بھی سراہا ہے ۔پاکستانی میڈیا کے مطابق،عالمی ادارہ صحت کےڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایدہانوم نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریع بات چیت میں  پاکستان میں اسمارٹ لاک ڈان کی تعریف کی اور کورونا وائرس کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو قابل ستائش قرار دیا۔

اسمارٹ لاک ڈاون کے علاوہ ، پاکستان میں صحت عامہ کے بنیادی نیٹ ورک  نےبھی اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں وبا کےخاتمے پر توجہ دی جا رہی ہے اور اس حکمت عملی کے تحت  لاکھوں سوشل ورکرز اور ویکسینیٹرز پر مشتمل ایک نیٹ ورک وبا کے ابتدائی مرحلے میں ہی کیسز کا سراغ لگانے میں مددگار ہے۔

اس تمام عرصے میں  چین اور پاکستان کی گہری دوستی اور تعاون کا ذکر بھی  ضروری  ہے۔ چین میں جب وبا پھوٹی ، تو پاکستان نے فوراً چین کو مدد فراہم کی ۔ اس کے جواب میں جب پاکستان میں کیسز سامنے آنے شروع ہوئے تو چین نے نہ صرف انسدادی سازوسامان اور طبی ٹیمیں بھجیں،بلکہمسلسلویڈیو لنک سمیت مختلف ذرائع سے پاکستان کے ساتھتجربات  کاتبادلہ کیا ۔ یوں پاکستان میں فوری طور  پر  بہترین انسدادی اقدامات اختیار کیے گئے  جن سےعوام کی  زندگی کا بہترین انداز میں تحفظ ممکن ہوا۔دوسری طرف  سنگین وبائی صورتحال میں بھی سی پیک کے منصوبے جاری رہے۔ وبا سے پہلے ہی بڑی تعداد میں چینی کارکن چین کے اہم ترین تہوار  جشن بہار کی تعطیلات کے لیے چین آئے تھے اورپھر پروازوں کے تعطل کی وجہ سے اپنے کام پر واپس نہیں جا سکے۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لیے  چینی کمپنیوں نے  چارٹرڈ پروازوں کا انتظام کیااور یون چینی کارکن پاکستان میں اپنے کام  پر واپس آ سکے۔سی پیک منصوبوں کا تسلسل سے جاری رہنا بھی پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے قوت  فراہم کرتا ہے۔

دو ہزار بیس دنیا کے کسی بھی  انسان کے لیے آسان نہیں ہے۔تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وبائی امراض کا  فوری خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔لہذا ہم اس سنگین وبا سے سبق سیکھ سکتے ہیں کہ خودغرضی کی بجائے اتحاد اور تعاون  اہم ہوتا ہے،دوسروں پر الزامات لگانے کی بجائے اپنا کام ذمہ دارانہ رویے سے سنبھالنا اہم ہوتا ہے اور عوامی صحت کے لیے سائنس کا احترام کیا جانا چاہیئے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here