انڈیا نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں گذشتہ روز کیے گئے خطاب کو ’ایک نیا سفارتی زوال‘ قرار دیتے ہوئے اسے ’جھوٹ، ذاتی حملوں، جنگ کے جذبات کو بھڑکانے اور پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اورسرحد پار دہشت گردی پر پردہ ڈالنے‘ کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔
جمعے کی رات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے انڈیا پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا میں ریاست اسلاموفوبیا کو فروغ دے رہی ہے اور یہ کہ دنیا میں اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے ایک عالمی دن مقرر کیا جانا چاہیے۔
اپنی تقریر میں عمران خان نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’انسانی حقوق کی خلاف ورزی، انڈیا میں مذہبی اقلیتوں پر مظالم اور آر ایس ایس کے ہندو توا ایجنڈے کو بڑھانے‘ جیسے معاملات پر بات کی تھی۔
اگرچہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی پاکستانی وقت کے مطابق آج (سنیچر) کی شب اقوام متحدہ میں اپنا خطاب کریں گے تاہم اس سے قبل ہی اقوامِ متحدہ میں انڈیا کے مستقل نمائندے ٹی ایس تیرومرتی نے عمران خان کے بیان پر اپنا شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’منھ توڑ جواب کا حق ابھی محفوظ ہے۔‘
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے آغاز میں ہی اقوام متحدہ میں انڈین مشن کے فرسٹ سیکریٹری میجیتو وینیتو جنرل اسمبلی سے باہر چلے گئے تھے۔
تاہم اس کے بعد انڈیا نے اپنا ’جواب دینے کا حق‘ استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی تقریر پر اپنا ردعمل دیا ہے۔
فرسٹ سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ’جموں و کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ اور ناقابل تقسیم حصہ ہے۔ انڈیا کی جانب سے جموں کشمیر میں لاگو کیے جانے والے نئے قوانین کا نفاذ مکمل طور پر انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ کشمیر میں صرف ایک یہ تنازع ہے اور وہ یہ کہ اس کا ایک حصہ اب بھی پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ انڈیا مطالبہ کرتا ہے کہ پاکستان تمام غیر قانونی قبضہ والے علاقوں کو چھوڑ دے۔‘
میجیتو وینیتو کا کہنا تھا کہ ’یہ (پاکستان) وہ ملک ہے جو خطرناک اور عالمی دہشت گردوں کو اپنے ریاستی فنڈز میں سے فنڈ مہیا کرتا ہے۔ آج ہم نے جس لیڈر (عمران خان) کو سُنا ہے یہ وہی شخص ہیں جنھوں نے اسامہ بن لادن کو اپنی پارلیمنٹ میں شہید کہا تھا۔‘
’انھوں (عمران خان) نے سنہ 2019 میں امریکہ میں اعتراف کیا کہ اُن کے ملک میں اب بھی 30 سے 40 دہشت گرد موجود ہیں جنھیں نے پاکستان میں تربیت حاصل کی تھی اور جو افغانستان اور جموں و کشمیر میں لڑتے ہیں۔ پاکستان اپنی مذہبی اقلیتیوں بشمول مسیحی اور سکھوں کو منظم طریقے سے تباہ کر رہا ہے۔‘
انھوں نے پاکستان میں مسلمان مذہبی فرقوں پر ہونے والے حملوں کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ (پاکستان) وہ ملک ہے جہاں ایسے مسلمانوں کے قتل کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو اکثریتی فرقے سے تعلق نہیں رکھتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ’اس اجتماع (اقوام متحدہ) نے ایک ایسے شخص کی بات سُنی جس کے پاس نہ تو اپنے کامیابیوں کے زمرے میں دکھانے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی دنیا کو دینے کے لیے اچھی تجاویز۔ اس کے بجائے ہم نے (اس تقریر میں) جھوٹ، غلط معلومات اور بددیانتی دیکھی۔‘
اقوام متحدہ میں انڈین مشن کے فرسٹ سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ایک ہی صورت میں دیگر عام ممالک جیسا بن سکتا ہے اور اس کا واحد راستہ دہشت گردی کے لیے اپنی اخلاقی ، مالی اور مادی حمایت ترک کرنا ہے، اپنی اقلیتوں سمیت اپنی آبادی کو درپیش مسائل پر توجہ دے اور اپنے عزائم کے بڑھاوے کے لیے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو استعمال نہ کرے۔‘
عمران خان نے کیا کہا تھا؟
جمعے کی شب اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا تھا کہ جنوبی ایشیا میں اس وقت تک پائیدار امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ جموں و کشمیر کے تنازعے کو حل نہیں کیا جاتا۔ ’سلامتی کونسل کو اس خطرناک تنازعے کو مزید گھمبیر ہونے سے روکنا چاہیے اور اپنی تجاویز پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس مسئلے کو ویسے ہی حل کرے جیسا کہ کہ مشرقی تیمور میں ہوا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر فاشسٹ، غاصب، آر ایس ایس کی زیر قیادت حکومت پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو وہ اس قوم سے ملاقات کرے گی جو اپنی آزادی کے لیے آخری دم تک لڑے گی۔‘
عمران خان نے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ انڈین حکومت ریاست کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بیان کیے گئے ریفرنڈم کا نتیجہ متاثر ہو سکے۔
عمران خان نے آر ایس ایس کے بارے میں کہا تھا کہ ’آر ایس ایس کے بانی ممبران نازیوں سے متاثر ہیں اور وہ نسلی پاکیزگی اور تسلط جیسے تصورات پر یقین رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اُن کا ماننا ہے کہ انڈیا صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور باقی مذہبی اقلیتیں برابر کی شہری نہیں ہیں۔’گاندھی اور نہرو کی سیکولرازم کے خیالات کی جگہ اب ایک ہندو قوم بنانے کے خواب نے لے لی ہے۔‘
انھوں نے اپنی تقریر میں گجرات میں ہونے والے سنہ 2002 کے فسادات کا بھی ذکر کیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر انڈیا کی ’جارحانہ کارروائیوں‘ کے باوجود پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمیشہ پُرامن حل کی بات کی ہے۔