وبا کے آئینے میں امریکہ کے انسانی حقوق کا بھیانک چہرہ واضح ہو گیا۔ سی آر آئی اردو کا تبصرہ

0

چودہ ستمبر کو جینیوا میںاقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا 45 واں اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے پہلے روز عالمی ادارے کےانسانی حقوق  کی ہائی کمشنر  میشیل باچلیٹ نے امریکہ سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں انسانی حقوق کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ  موجودہ سیشن کے آخر میں ، انسانی حقوق کونسل کے  43 ویں اجلاس میں منظور شدہ نظامی نسل پرستی ، انسانی حقوق کی پامالیوں اور پولیس کی طرف سے  قانون نافذ کرنے کے لیے پرتشددکاروائیوں کے بارے میں  قرار داد پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ پیش کریں گی۔ باچلیٹ نے کہا کہ اس وبا نے عدم مساوات کو بھی بے نقاب کیا ہے ، مختلف نسلوں اور مختلف معاشرتی حیثیت کے لوگ وبا میں مختلف طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔

کووڈ-۱۹ کی وبا  نے  ایک جادوئی آئینے کی طرح کچھ ممالک ، خاص طور پر امریکہ میں انسانی حقوق کا حقیقی روپ  لوگوں کے سامنے پیش کیا اور  بہت سے مفروضوں کی حقیقت کھول دی ہے۔ امریکہ دوسرے ممالک کے انسانی حقوق کی صورتحال پر تبصرہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور  اپنے آپ کو “انسانی حقوق کا محافظ” کہتا  ہے ۔امریکہ کا دوسرے ممالک کے داخلی معاملات پر تنقید کرنا بھی غیر معمولی بات نہیں ہے۔تاہم وبا کےدوران امریکہ میں انسانی حقوق کی حقیقت سامنے آئی اور وبائی صورتحال نے امریکہ کے چہرے سے انسانی حقوق کے محافظ ہونے کا وہ نقاب اتار پھینکا جس کے پیچھےاس کا اصل اور گھناؤنا چہرہ چھپا ہوا تھا ۔ ۔اس وقت امریکہ دنیا میں کووڈ-۱۹سے سب سے زیادہ متاثرہونے والا  ملک ہے اور یہاں اموات بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔لوگ یہ دیکھ کر پوچھیں گے کہ محفوظ زندگی، سب سے بنیادی انسانی حق ہے،اگر امریکی حکومت  لوگوں کے لیے ایک محفوظ زندگی کی ضمانت نہیں دےسکتیتو اس کو  انسانی حقوق کی بات کرنے کا کیا حق ہے؟

آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ کووڈ-۱۹کے تناظر میں انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے امریکہ  کتنے پانی میں ہے ۔ وبا پھیلنے کے بعد سے ،امریکہ میں افریقی امریکیسمیتاقلیتیں  نسل پرستی اور وبائی امراض کے دوہرے عذاب کا شکار ہیں۔اس معاشرے میںکمزور گروہ زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کررہے  ہیں۔ نرسنگ ہومز میں وائرس انفیکشن سےمعمر افراد کی ہلاکت  امریکہ  میں کووڈ-۱۹ سے ہونے والی اموات کا ایک تہائیہے۔ غریب  طلباء کے لیے تعلیم کا حصول دشوارہوتا جا رہا ہے  اور تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں معاشی فرق بڑھتا جارہا ہے۔ بے روزگاری کی بلند شرح نے مزدور طبقے کو ایک خطرناک صورتحال اور بحران میں دھکیل دیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 1930 کی دہائی کے دی گریٹ ڈیپریشن  کے بعد ایک نئی ریکارڈ سطح  پر پہنچ گئیہے۔عوام کی جانوں کو بچانے ، ان کی حفاظت کرنے  اور  انسداد وبا کے ٹھوس اقدامات اختیار کرنے کی بجائے ،امریکی حکومت  اخلاقی قدروں اور ضمیر کی آواز کو نظرانداز کر کے اپنی نا اہلی کو چھپانے ، میڈیا  رپورٹنگ کو روکنے ،  وبا پر  سیاست کرنے اور وبا کی ذمہ داری دوسرےممالک پر عائد کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔

چین ،وبا پر قابو پا کر، معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کو بحال کرنے والادنیا کا سب سے پہلا ملک ہےاور چین نے انسداد وبا کے سلسلے میں امریکہ سمیت متعدد ممالک  کو خاظر خواہ امداد و تعاون  فراہم کیا ہے۔عالمی برادری نے چین کی کاوشوں اور  انسداد وبا کے لیے اس کی گراں قدر خدمات کو  بے حد سراہا ہے ۔ تاہم امریکی حکومت عوام کی توجہ اپنی غلطیوں پر سے ہٹانے اوران کی   تنقید کا رخ موڑنےکے لیے وبا کی ذمہ داری ،چین پر عائد کرتی چلی آ رہی ہے ۔ اس رویے کی امریکی عوام نے بھیسخت مذمت کی  ہے۔امریکی شہریوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ سیاست کو انسانی جانوں سے زیادہ اہم سمجھتی ہے۔ جب وبا پھیلتی ہےتو سیاسی اسکور نگ کا حصول صرف ایک کمزور اور حقیر ترین  انتظامیہ کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ پوری دنیا میںامریکہجیسی بے حس حکومت نہیں ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور صحت کی کبھی بھی پرواہ نہیں کرتی ہے۔

یاد رہے کہ سترہ مارچ کو ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 43 ویں اجلاس کے دوران امریکہ میں  نسل پرستی پر ایک ہنگامی بحث کی گئی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی تاریخ میں یہ پانچواں موقع ہے کہ اس اجلاس کے دوران ہنگامی بحث کی گئی ہے ، جب کہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نےامریکہ میں انسانی حقوق کے معاملے پر ہنگامی اجلاس کیا ہے۔ظاہر ہے کہ وبا کے تناظر میں امریکہ میں انسانی حقوق  کی حالت عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے۔امریکہ ناصرف  اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کی بنیادی اقدار کو بھی پامال کرتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here