چار ستمبر کو، چین کےریاستی کونسلراوروزیر دفاع ویفنگحہ اورہندوستان کےوزیردفاع راج ناتھسن گھنےماسکومیں ایک ملا قاتکی۔ یہ باتقابل ذکرہےکہچیناورہندوستانکے درمیانسرحدیتنازعہکے بعد دونوںفریقو ںکےمابین یہاعلی ترین سطح کااجلاستھا۔ اسنازکلمحےمیں فریقین کی جانب سے اس ملاقات کے ذریعے ایک مثبت پیغام دنیا کو دیا گیا ہے۔اس سے قبل بھارتی سفارتی ذرائع کی جانب سے بھی تنازعات کو سفارتکاریکے ذریعےحلکرنے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی ۔ چین اورہندوستاندو نوں گہریتاریخ کےحامل ممالک ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھدونوںممالککےتعلقات میں اتار چڑھاو بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے دو بڑے ترین ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور مفاہمت دونوں فریقوں کے وسیع مفاد میں ہے ۔
بھارت کے جارح رویے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ، اس کے ہمسایہ ممالک میں کون سا ایسا ملک ہے جو اس بھارتی روئیے کا شکار نہیں ہے ۔ اس کے بر عکس چین کے ناصرف اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات شراکت داری اور باہمی تعاون پر مبنی ہیں ۔
چین کی تاریخ گواہ ہے کہ چین کسی بھی ایسی اشتعال انگیزی کے جواب میں حتی الوسع تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے تاہم اس تحمل کو اگر کوئی خوف سمجھ کر در اندازی کرے تو چین اپنی سلامتی اور خود مختاری کا دفاع کرنا خوب اچھی طرح جانتا ہے۔
بھارتی فوج نے چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر سرحدی قوانین کی واضح خلاف ورزی کی ہے۔ اس بات کو حالیہ دنوں بھارتی فوج کی جانب سے تسلیم بھی کیا گیا کہ بھارت نے پہل کرتے ہوئے کاروائی کی ۔ایسے میں یہ لازم ہے کہ چین اپنی سرزمین کے تحفظ کے لیے لازمی اقدامات کرے۔اس سے قبل بھی رواں سال مئی میںلداخکی جانب سرحد کی کشیدہ صورت حال نے دنیا کو ناصرف چونکا دیا بلکہ ایک عجیب سے تناو کا شکار بھی کیا کیونکہ دنیا اس وقت غیر معمولی افراتفری اور پے در پے مسائل کا سامنا کر رہی ہے ،اگر ایک طرف دنیا اس وقت وبا کی لپیٹ میں ہے تو دوسری طرف قدرتی آفات ، خوراک کی قلت اور بے روزگاری جیسے عفریت بھی منہ کھولے پھر رہے ہیں۔ ایسے میں دو ایٹمی طاقتوں کا آمنے سامنے آناخطرناک تھا۔ اسی لیے جب چین اور بھارت کے وزراء نے ماسکو میں ملاقات کا فیصلہ کیا تو دنیا کو امید کی کرن نظر آئی۔ بات چیت میں چینی وزیر دفاع نے دو ٹوک الفاظ میں بھارت پر واضح کر دیا کہ چین اپنی سر زمین کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دے گا اور بھارت اگر اپنی افواج کو فرنٹ لائن سے پیچھے ہٹانے پر آمادہ نہیں تو چین بھی اپنے دفاع سے لمحہ بھر کے لیےغافل نہیں ہے۔ بھارتی وزیر دفاع نے کہا کہ ہندوستان کو امید ہے کہ دونوں فریق ایک ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں گے ، جلد از جلد فرنٹ لائن افواج کو مکمل طور پر پیچھے ہٹائیں گے اور ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جو صورتحال کو پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔اس بات چیت کے بعد امید تو یہی ہے کہ بھارت ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا اور اشتعال انگیز کارروائیوں سے باز رہتے ہوئے چین کے ساتھ مل کر قیام امن کو فروغ دے گا۔