دو ستمبر کوچین کی وزارت خارجہ اور چین ساوتھ چائناسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے مشترکہطورپر “بحیرہِجنوبیچین،تعاونکےتناظرمیں ” کےموضوعپر بینالاقوامی ویڈیوسیمینار کا انعقاد کیا۔ سیمینار میں شریک چینی و غیر ملکی شخصیات کا خیال ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کو بحرِ امن،دوستیوتعاون بنانا، خطےکےممالکاوردنیا بھرکے عوامکےمشترکہمفادات سے مطابقترکھتا ہے۔چیناورآسیانممالککےتعاونکوفروغدیناچاہیے،بحیرہجنوبی چین کے معاملے سے نمٹنے کے لیے “ڈوئل ٹریک اپروچ” پر عمل پیرا رہنا چاہیے ،اوربحیرہ جنوبی چین کوبینالاقوامیسیاسیاکھاڑےمیںتبدیلنہیں کرناچاہیے۔سیمینارمیں چین، فلپائن، ملائیشیا، انڈونیشیا،کمبوڈیا، تھائیلینڈ،سنگاپور اور روس سمیت دیگرممالک کے 160 سے زیادہ سابقہ عمائدین،عہدیداران،ماہریناوراسکالرزنےبحیرہجنوبیچینمیںامنواستحکامکیبحالیاورباہمیتعاونکےلیےاپنیرائےاور تجاویزدیہیں۔
تھائی لینڈ کے سابق نائب وزیر اعظم سورتجی نےاسباتپرزوردیاکہبحیرہجنوبیچینمیںامنواستحکام کے حصول کے لیے تمام فریقوں کی جانب سے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ، خطے کے اندر اور باہر کے ممالک کو بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے کو “سیاسی اثر سے پاک ” کرنا چاہیے ، تعاون کےمواقعتلاشکرنےچاہئیں ،بڑےتنازعاتکوروکاجاناچاہیے،اورجتنیجلدیممکنہوسکے “بحیرہ جنوبی چین میں ضابطہ اخلاق” تکپہنچناچاہیے۔
چین کےساوتھ چائناسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وو شی زین نےکہاکہامریکیوزیرخارجہپومپیونےحالہیمیںغیرذمہدارانہتقاریرکاایکسلسلہشروعکیاتھا،امریکہنے ” بحیرہجنوبیچینمیںمصنوعیجزیرے بنانے میں مدد دینے” کی بنا پر 24 چینی کمپنیوں کے خلاف پابندیوں کا اعلان بھی کیا۔ ان سب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر مصیبتسازبنچکاہے۔