چوبیس تاریخ کو ٹک ٹاک نے کیلیفورنیا کی ضلعی عدالت میں باضابطہ طور پر امریکی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے جس میں کہا گیا کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے ٹک ٹاک اور بائٹ ڈینس کمپنی کےخلاف صدارتی فرمان غیر قانونی ہے۔
حالیہ دنوں ٹرمپ انتظامیہ کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ ٹک ٹاک پر دباو بڑھایا جائے ۔چھ اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی فرمان جاری کیا ، جس میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک اور وی چیٹ امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔صدارتی فرمان کی روشنی میں پینتالیس روز کے بعد امریکی شہریوں یا کاروباری اداروں کو ٹک ٹاک اور بائٹ ڈینس کمپنی کے ساتھ کسی قسم کے کاروباری مراسم کی اجازت نہیں ہو گی۔اس پیش رفت کے ٹھیک آٹھ روز بعد ٹرمپ نے بائٹ ڈینس کمپنی اور ٹک ٹاک کے خلاف ایک اور صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا۔
ہوا وے سے ٹک ٹاک تک ، ٹرمپ انتظامیہ “قومی سلامتی ” کی آڑ لیتے ہوئے چینی کاروباری اداروں کی ترقی کو محدود کرنے کی کوششوں میں مسلسل مصروف ہے۔کیا ٹک ٹاک نے امریکہ کی قومی سلامتی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہے ؟ ہر گز نہیں ، بلکہ ٹک ٹاک نے تو واضح اعلان کیا ہے کہ نہ تو چینی حکومت نے کبھی امریکی صارفین سے متعلق کمپنی سے معلومات مانگی ہیں اور نہ ہی کبھی کمپنی نے چینی حکومت کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔دوسری جانب نیویارک ٹائمز سے ملی اطلاع کے مطابق سی آئی اے نے وائٹ ہاوس کو پیش کی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ”اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ ٹک ٹاک نے چینی حکومت کو معلومات فراہم کی ہیں۔”
ایسی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ ٹک ٹاک پر پابندی قطعاً بے بنیاد ہے۔ہماری دانست میں تو امریکہ ہمیشہ منصفانہ مسابقت کا پرستار رہا ہے لیکن موجودہ ٹرمپ انتظامیہ کا عمل تو منصفانہ مسابقت کے اصول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسے اقدام کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں “بالاست رویے” کہا جاسکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے سے کس کو فائدہ ہو سکتا ہے ؟
امریکی انتظامیہ کے مسلسل دباو کے نتیجے میں ٹک ٹاک نے آئرلینڈ میں یورپ کا اپنا پہلا ڈیٹا سینٹر قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ٹک ٹاک اس منصوبے کے لیے یورپ میں بیالیس کروڑ یورو کی سرمایہ کاری کرے گیاور ساتھ ساتھ روزگار کے سینکڑوں مواقع فراہم کرے گی۔ ادھر اگر امریکہ میں ٹک ٹاک کی کاروباری سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے تو روزگار کے دس ہزار مواقع بھی گنوا دیے جائیں گے۔
اگر صارفین کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ جولائی تک ٹک ٹاک کے عالمی صارفین کی تعداد تقریباً ستر کروڑ ہو چکی ہے ۔ اگست تک دنیا بھر میں ٹک ٹاک ایپ دو ارب مرتبہ ڈاون لوڈ کی جا چکی ہے اور دو سو سے ذائد ممالک اور خطوں میں ٹک ٹاک صارف موجود ہیں۔صرف امریکہ میں ہی تقریباً دس کروڑ لوگ ٹک ٹاک استعمال کررہےہیں۔ ٹک ٹاک ان لوگوں کے لیے نہ صرف ایک تفریحیپروگرام ہے بلکہ بے شمار لوگ ٹک ٹاک کے ذریعے جائز طور پر اپنی آمدن بڑھا رہے ہیں، بالخصوص وبائی صورتحال میں تو اس کی اہمیت مزید عیاں ہوئی ہے جب لوگوں نے گھر بیٹھے ٹک ٹاک کی مدد سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہیں۔ٹک ٹاک پر پابندی ایسے لوگوں اور عام صارفین کی زندگیوں پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گی۔
علاوازیں ٹک ٹاک پر پابندی سے دنیا بھر میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے شعبے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اگرچہ ٹرمپ کی نظرمیں ٹک ٹاک پر پابندی سےانہوں نے امریکی کاروباری اداروں کو آگے آنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے لیکن درحقیقتنئی ابھرتی ہوئی غیرملکی ٹیکنالوجی کمپنی پر پابندی ، امریکہ میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی بجائے نقصان کا سبب ہو گی۔
تو کیا ٹک ٹاک پر پابندی ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے مفید ہے؟شائد اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ فارچون میگزین کی جانب سے جاری سروے کے مطابق لوگ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔
طویل المیعاد بنیادوں پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں بالاست نظریات پر عمل پیرا ہونا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔امریکی انتظامیہ کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی سےنہ صرف دیگرغیرملکی ٹیکنالوجی کاروباری اداروں کی امریکہ میں ترقی متاثر ہوگی بلکہ خود امریکہ بھی اس سے منفی طور پر متاثر ہو گا۔