حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نامہ نگار وں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تجارتی جنگ میں مقابلے کے لیے اب چین کے ترکش میں تیر کم پڑ گئے ہیں ۔ اپنے اس دعوے کےثبوت کے طور پر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی حکومت نے دو کھرب ڈالرز کی چینی مصنوعات پر اضافی ٹیکس لگایا ہے جبکہ چینی حکومت نے صرف ترپن ارب امریکی مصنوعات پر اضافی ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ۔
سی آر آئی کے تبصرہ نگار نے امریکی صدر کے مذکورہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تجارتی جنگ کے سامنے چینی معیشت اور منڈی کافی مضبوط ہیں۔ چینی حکومت دانش مندانہ اقدامات کے ذریعے امریکی حکومت کے غیر دانش مندانہ اقدامات کا جواب دیتی رہتی ہے جس کا مقصد عوام کے مفادات ، آزاد تجارتی نظام اور دنیا کے تمام ممالک کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے ۔ حال ہی میں عالمی بینک نے چینی معیشت کےبارے میں اپنی ایک رپورٹ میں واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ چینی معیشت کی بھر پور ترقی کا رجحان برقرار رہا ہے۔ چینی حکومت کی طرف سے نئے دور کے کھلے پن کے اقدامات پر عمل کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے تجارتی جنگ کا مقابلہ کرنے کےلیے زیادہ وسائل دستیاب ہوں گے۔دوسری طرف دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ گزشتہ تین مہینوں کی تجارتی جنگ کے بعد خود امریکی حکومت ہی کے پاس چین کے خلاف مقابلہ کرنے کے وسائل کم سے کم ہوتے چلےجا رہے ہیں ،اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے مذکورہ انٹرویو میں تجارتی جنگ کو تجارتی کشمکش قرار دیا تاکہ دونوں ممالک کے مابین محاذ آرائی کی شدت کو کم کیا جا سکے۔اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ ستمبر میں چین کے ساتھ تجارت میں امریکہ کا خسارہ چونتیس ارب دس کروڑ امریکی ڈالر بنا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تیرہ فیصد زیادہ ہے۔امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کی پالیسی کو شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سی آر آئی کے تبصرے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ تجارتی جنگ میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوتا کیونکہ تجارتی جنگ میں کوئی بھی فریق نقصانات سے نہیں بچ سکتا ۔ دنیا میں سب سے بڑی طاقت بھی معیشت کی عالمگیریت کے رجحان کو روک نہیں سکتی۔اگر امریکی حکومت چین کے خلاف تجارتی جنگ کو ختم کرنا چاہتی ہے تو چین بات چیت کے لیے تیار ہے تاہم اگر امریکی حکومت نے تجارتی جنگ کے اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہا تو چین کے ترکش میں بڑی تعداد میں تیر ابھی بھی محفوظ ہیں۔