سولہ ستمبر کو چین کے وزیرخارجہ وانگ ای نے دوشنبے میں افغان مسئلے پر چار ممالک کے وزرائے خارجہ کے غیر رسمی اجلاس میں شرکت کی۔
اجلاس میں چینی وزیرِ خارجہ سمیت روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف ، پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ایران کے وزیرخارجہ کے معاون میر حسین موسوی نے شرکت کی ۔وانگ ای نے کہا کہ افغانستان کے اہم ہمسایہ ممالک اور خطے کے بااثر ممالک کے طور پر چاروں ممالک کو مشاورت اور تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے اور افغان صورتحال کی ہموار منتقلی میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔وانگ ای نے اگلے مرحلے میں چاروں ممالک کی مشاورت اور تعاون کے حوالے سے تجاویز پیش کیں۔چاروں ممالک کو مزید ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر امریکہ پر زور دینا چاہیے کہ امریکہ افغانستان کی تعمیر نو میں اپنی ذمہ داری نبھائے اور معاشی مدد اور انسانی ہمدردی پر مبنی امداد فراہم کرے۔چاروں ممالک کو افغانستان کے اقتدار اعلی،خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کی بنیاد پر افغانستان میں جامع سیاسی ڈھانچے کی تعمیر ،معتدل اور سمجھدار ملکی اور خارجہ پالیسی کے نفاذ ، دوستانہ سفارتی پالیسی کے نفاذ اور اقلیتی قومیتوں ، خواتین اور بچوں کے بنیادی حقوق کے احترام کو فروغ دینا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ نئی افغان حکومت اپنے وعدے کے مطابق دہشت گرد قوتوں کے ساتھ روابط کو ختم کرسکے گی خاص طور پر ہمسایہ ممالک کو نشانہ بنانے والی دہشت گرد قوتوں کے خلاف سخت کارروائی کر ے گی۔ہمیں افغان عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک اور عالمی تنظیموں کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے تاکہ افغان عوام کی مشکلات کو دور کیا جائے ۔ہمیں افغانستان میں خود انحصاری اور پائیدار ترقی کی صلاحیت کو ترتیب دینے میں مدد فراہم کرنی ہے اور افغانستان کو علاقائی اقتصادی تعاون میں شامل کرنا ہے۔ وانگ ای کا کہنا تھا کہ چین ، روس ، پاکستان اور ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانا چاہتا ہے اور افغانستان میں استحکام کے تحفظ ، دہشت گردی کے خاتمے اور پرامن تعمیر نو کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔چاروں ممالک نے اتفاق کیا کہ وہ افغان صورتحال کے مطابق مشاورت برقرار رکھیں گے۔