اس وقت افغانستان کے دارالحکومت کابل کا شہری علاقہ بتدریج معمول پر آرہا ہے ۔ تاہم امریکی فوج کے زیر کنٹرول کابل ایئرپورٹ پر افرا تفری بدستور جاری ہے ۔ ائیر پورٹ کے باہر بہت بڑا ہجوم جمع ہے ۔ اس تناظر میں امریکہ کے اتحادیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ 21 تاریخ کو یورپی یونین کے نمائندہ اعلیٰ برائے خارجہ اور سیکورٹی پالیسی جوزف بوریل نے میڈیا انٹرویو میں کابل ایئرپورٹ پر اضطرابی صورتحال کے لیے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بوریل نے کہا کہ امریکی فوج کی جانب سے کابل ایئرپورٹ پر انتہائی سخت حفاظتی اقدامات کے باعث یورپی یونین کے عملے کو انخلاء کے عمل میں رکاوٹ کا سامنا ہے ۔ عملے کی ایک بڑی تعداد امریکی فوج کے معائنے کو پاس نہیں کر پا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابل میں یورپی یونین کے وفد میں تقریباً چار سو افغان ملازمین اور ان کے اہل خانہ شامل ہیں ، لیکن تاحال صرف 150 کو کامیابی سے نکالا گیا ہے۔ تاہم انخلا کے حوالے سے 21 تاریخ کو اسپین پہنچنے والی پرواز میں ایک تہائی مسافر امریکی تھے ۔ بوریل نے کہا کہ اس مرتبہ یورپی یونین پوری طرح بیدار ہوچکی ہے کہ اسے دوسروں پر آس لگانے کے بجائے خود پر انحصار کرنا چاہیے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے حال ہی میں برطانوی پارلیمنٹ میں افغانستان کی صورتحال پر بحث میں شریک ہوتے ہوئے تنقید کی تھی کہ افغانستان میں برطانیہ کی شرم ناک صورتحال سے دوچار ہونے کی وجہ برطانیہ کا صرف امریکہ کی پیروی کرنا ہے۔