چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لی جیان نے چھبیس جولائی کو کہا کہ حالیہ عرصے میں عالمی برادری نے امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ نوول کورونا وائرس کے سراغ کے مسئلے پر سیاست کر رہا ہے ، اور فورٹ ڈیٹریک بائیو لیب کو شامل تفتیش کرنے کے معقول مطالبات بڑھ رہے ہیں۔امریکہ کو فوری طور پر ایک شفاف اور ذمہ دارانہ رویہ اپنانا چاہیے اور عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کو امریکہ بلانا چاہیے تاکہ وہ فورٹ ڈیٹریک بائیو لیب سے متعلق تحقیق سے دنیا کو سچ بتا سکیں۔ امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹریک بائیو کیمیکل ہتھیاروں کی ریسرچ بیس میں کتنے راز چھپے ہیں ؟اس وقت یہی اصل مطالبہ ہے۔
1941 میں امریکی فوج کے سابق سیکریٹری ہنری سٹیمسن کو خفیہ اطلاع ملی کہ جاپانی فوج نے چین میں بیکٹیریل ہتھیاروں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ جس کے فوری بعد اس وقت کے صدر روزویلٹ کی اجازت سے امریکی فوج نے حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ایک خفیہ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ دو سالہ تیاری کے بعد کیمپ ڈیٹریک باضابطہ طور پر قائم ہوا اور اسے آرمی بائیولوجیکل وارفیئر لیبارٹری کا ہیڈ کوارٹر قرار دیا گیا۔
1945 میں دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے قبل، امریکہ نےملازمتی معاہدوں کے تحت نازی سائنسدانوں کو امریکہ لایا ۔ فورٹ ڈیٹریک کا عملہ جراثیموں سے لدے سوٹ کیسوں کے ساتھ واشنگٹن اور سان فرانسسکو میں گھومتا رہا ، اور انفیکشن کے وقت اور دائرہ کار کی پیمائش کے لیے نیو یارک سٹی کے سب وے اسٹیشنوں پر باریک سلاخ نما کیمیائی بم رکھے گئے۔
1946 میں جاپانی حملہ آوروں کے” 731 بیکٹیریا یونٹ” کے سربراہ شیرو ایشی کو امریکی فوج نے خفیہ طور پر گرفتار کیا۔ امریکہ نہ صرف شیرو ایشی کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہا ، بلکہ اس نے شیرو ایشی کو فورٹ ڈیٹریک لیبارٹری کے حیاتیاتی ہتھیاروں کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے کی دعوت بھی دی ، اور جاپانی فوج کے 731 یونٹ کے انسانی تجربات ، بیکٹیریل تجربات اور زہریلی گیس کے تجربات سے متعلق بڑی تعداد میں ڈیٹا حاصل کیا گیا۔ اعداد و شمار کا یہ سلسلہ مستقبل میں فورٹ ڈیٹریک میں بیکٹیریل ہتھیاروں پر تحقیق کے لیے امریکہ کا ایک اہم حوالہ اور بنیاد بن چکا ہے۔