مالیاتی اداروں کے آفیشل فورم کی ویب سائٹ نے تین جون کو جرمنی کے سابق چانسلر گیر ہرڈ شروڈرکا ایک مضمون شائع کیا ۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں چین اور دنیا کے دیگر ممالک کے مابین تعلقات سمیت عالمی صورت حال میں بڑی واضح تبدیلیاں آئی ہیں ۔ امریکہ کی موجودہ انتظامیہ چین کو اپنے لئےاس صدی کا سب سے بڑا چیلنج سمجھتی ہے اور چین کی ترقی کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ امریکہ چینی معیشت کو مغربی ممالک سے علیحدہ کرنے کی کوشش کررہا ہے اور یورپی ممالک سے اپنے چین مخالف عمل میں شریک ہونے کا مطالبہ کررہا ہے ۔لیکن کیا چین سے علیحدگی اختیار کرنا یورپ کے اپنے مفادمیں ہے ؟ نئی سرد جنگ کے علاوہ ، کیا یورپ کے پاس کوئی دوسرا انتخاب نہیں ہے؟ تجارت ،سرمایہ کاری اور ترقی کے حوالے سے چین ایک ایسا ساتھی ہے جس کا دنیا بھر میں خیر مقدم کیا جاتا ہے ۔ انسداد وبا میں یورپ کے مقابلے میں چین زیادہ کامیاب ہے اور چینی معشیت دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بحال ہوئی ہے ۔ جرمنی چین کے ساتھ تجارت میں اضافے کے ذریعے دنیا کی دیگر منڈیوں میں اپنے نقصانات کا ازالہ کر سکتا ہے۔یورپی ممالک کو امریکہ کی اس تجارتی سرد جنگ کا حصہ بننے سے گریز کرنا چاہیئے ۔ امریکہ نے کہا کہ موجودہ تصادم جمہوریت اور آمریت کے درمیان تصادم ہے ۔ امریکہ نام نہاد ” اخلاقی سفارتی پالیسی” کے نام پر غلط سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ایسی پالیسی سے عالمی چیلنجز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور وبا کا پھیلاؤ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی برادری کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا ۔مستقبل میں چین امریکہ تعلقات میں یورپی ممالک کو غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے ۔