اکیس مئی کو چینی حکومت نے “تبت کی پُرامن آزادی ،خوشحالی اور ترقی” کے عنوان سے وائٹ پیپر جاری کیا ، جس میں آزادی کے 70 سالوں کے دوران تبت کی ترقیاتی کامیابیوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ وائٹ پیپر میں موجود تفصیلی تاریخی مواد اور اعداد و شمار نے تبت سے وابستہ امور پر مغربی ممالک میں موجود چین مخالف قوتوں کے “انسانی حقوق” سے متعلق پھیلائے گئے جھوٹ کو کچل دیا اور دنیا کو ایک حقیقی اور سہ جہتی تبت دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
قدیم دور سے ہی تبت چین کا لازم و ملزوم حصہ رہا لیکن جدید دور میں اس پر مغربی ممالک نے حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا ،اس وقت کمتر قرار دیئے گئے لوگوں کے بنیادی حقوق کے بارے میں بات نہیں کی جاسکتی تھی ۔ 23 مئی 1951 کو تبت نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور ترقی کی ایک روشن راہ پر گامزن ہوا۔ تاریخی شواہد اور اعدادو شمار اس ترقی کے آئینہ دار ہیں ۔ 1951 میں تبت کا جی ڈی پی صرف 129 ملین یوآن تھا جو کہ 2020 میں 190 ارب یوآن سے تجاوز کر گیا ۔ تبت میں 1951میں اوسط زندگی 35.5 سال تھی جو کہ بڑھ کر 2019 میں 71.1 سال ہوگئی ۔ اسی کے ساتھ ہی تبت کی عمدہ روایات و ثقافت اور مذہبی آزادی کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کیا گیا ۔
در حقیقت ، تبت کا مسئلہ قومیت یا مذہب کا مسئلہ نہیں ہے ،نہ ہی یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ، بلکہ یہ بے حداہم مسئلہ ،چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت سے وابستہ ہے۔ طویل عرصے سے مغربی ممالک میں چین مخالف قوتوں نے تبت کے معاشرتی استحکام کو خراب کرنے کی کوشش میں تبت کے معاملات میں مسلسل مداخلت کی جس کا مقصد “تبت کے معاملے” کو چین کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے لیے مذہب اور انسانی حقوق کی آڑ میں ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرنا تھا ۔
آج کا تبت ہر گزرتے دن کے ساتھ بدل رہا ہے ، اور یہاں اب چین مخالف قوتوں کے لیے پریشانی پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے نعرے کی آڑ میں ، “تبت کے ذریعے چین کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے” کی ان کی کوششیں آخرکار ناکام ہوں گی۔