حال ہی میں امریکی حکومت نے کووڈ -۱۹ ویکسین کے حوالے سے دانشورانہ املاک کے تحفظ سے متعلق چھوٹ کی حمایت کی ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے ایک مضمون میں کہا کہ یہ موجودہ وبا سے نمٹنے کا موئثر اقدام نہیں ہے ۔ بڑی تعداد میں بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کے خیال میں امریکہ کا یہ بیان قابل عمل نہیں ہے ۔ یہ ایسا ہے کہ کسی کو بھوک لگی اور اسے مٹانے کے لئے کیک کی پینٹنگ بنانا شروع کردی جائے، یہ اعلان محض سیاسی شعبدہ بازی ہے۔ کووڈ -۱۹ ویکسین کے حوالے سے دانشورانہ املاک کے تحفظ سے متعلق چھوٹ کی منظوری کے لیے دبلیو ٹی او کے ایک سو چھیاسٹھ رکن ممالک کی حمایت کی ضرورت ہے ۔ اس مقصد کی تشکیل کے لیے ایک طویل مدتی مذاکرات ہوں گے ۔ ایسے موجودہ ہنگامی مسئلے کو کیسے حل کیا جا سکے گا ؟ کچھ دن پہلے ، یورپی کمیشن کی صدر وان ڈیر لین نے کہا تھا کہ دنیا کی اولین ترجیح ویکسین کی مناسب فراہمی اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے ، نہ کہ دانشورانہ املاک میں چھوٹ کا مسئلہ ہے ۔ اس بیان سے امریکی حکومت کی غیر عملی ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ واقعی اس وقت اہم مسئلہ “ویکسین نیشنلزم” ہے ۔ امریکی ویکسینوں کا تقریباً 100 فیصد امریکہ کو فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں امیر ممالک ضرورت سے زیادہ ویکسین جمع کررہے ہیں ، اور غریب ممالک میں ویکسین کی خاصی قلت ہے ۔ اس سے مزید خراب بات یہ ہے کہ امریکہ نے مختلف ویکسینوں کی تیاری کے لئے درکار خام مال کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے ، جس کی وجہ سے وبا کے خلاف جنگ میں عالمی سطح پر تعاون میں سنگین رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں ۔ خوبصورت اقوال کے مقابلے میں دنیا کو حقیقی عمل کی ضرورت ہے ۔ اب تک چین اسی سے زائد ترقی پزیر ممالک کو ویکسین کی مدد فراہم کر چکا ہے ۔ چین نے پچاس سے زائد ممالک کو ویکسین برآمد کی ۔ حال ہی میں ڈبلیو ایچ او نے ہنگامی استعمال کی فہرست میں چائنا نیشنل فارماسیوٹیکل گروپ کی تیار کردہ کووڈ ۔19 ویکسین کو شامل کردیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چینی ویکسینیں حقیقی معنوں میں دنیا کی خدمت کریں گی۔