ایف ایم 98 دوستی چینل، چائنہ میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ایک پٹی ایک شاہراہ فورم برائے بین الاقوامی تعاون کی 5ویں سالگرہ کی مناسبت سے اسلام آباد میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر خیبرپختونخوا سرمایہ کاری بورڈ کے سی ای او حسن داؤد بٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کی بدولت پاکستان میں ترقی کے بہت سے مواقع میسر آئے ہیں، جن میں ایک ادنیٰ مثال ڈیرہ اسمٰعیل خان-ہیکلا موٹر وے ہے، جس کی تکمیل کے ساتھ ہی اس کے ارد گرد صنعت اور تحقیق کے میدان میں ابتدائی طور پر 8 ارب روپے کی نمایاں سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے، جبکہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز ہوچکا ہے جس کی بدولت پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔حسن داؤد بٹ نے چینی راہنمائ تنگ شیاؤ پھنگ کا یہ مقولہ دہراتے ہوئے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد سے ہی دریا عبور کرسکتے ہیں، کہا کہ ہم مکمل اتحاد کے ذریعے مستقبل کے ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
اس موقع پر سینٹر فار ساؤتھ ایشیا اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمود الحسن نے کہا کہ مغربی ذرائع ابلاغ پاکستانی عوام کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے سی پیک کو ایک خطرناک جال قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک پٹی ایک شاہراہ کے اقدام کا مقصد عالمی سطح پر امن اور تعاون ہے، جس کی بدولت عالمی تجارت میں 6.1 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ محمود الحسن نے کہا کہ ایک پٹی ایک شاہراہ کے تحت عالمی سطح پر 82 اقتصادی زون تعمیر کئے جارہے ہیں، جبکہ مختلف ممالک میںلاکھوں افراد کو انتہائی غربت کی حالت سے نجات دلائی جاچکی ہے۔
سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایشین انسٹیٹیوٹ آف ایکو سیویلائزیشن ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے سی ای او شکیل احمد رامے نے کہا کہ ایک پٹی ایک شاہراہ کے علمبردار منصوبے سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی تعاون کو اہمیت دی جارہی ہے اور یہ حکومت سے زیادہ کاروباری سطح کا تعاون ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چین کے ساتھ تعاون مضبوط بنانے کیلئے اس کی پالیسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے چائنہ سٹڈی سینٹر کی سربراہ ڈاکٹر ڈاکٹر حنا اسلم نے کہا کہ چین میں ماحول دوست ٹیکنالوجی کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے اور پاکستان اسی حوالے سے چین کے مزید تعاون کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبوں میں ماحولیاتی آلودگیاور ماحول دوست ترقی کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر حنا اسلم نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں قائم چینی سفارتخانے کی مدد سے سی پیک گرین ڈیویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کیا ہے، جبکہ سی پیک گرین الائنس پر کام جاری ہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نینو ٹیکنالوجی ڈیویلپمنٹ بورڈ سابق چیئرمین ڈاکٹر نور محمد بٹ نے بتایا کہ چین کے جوہری ماہرین کی ٹیم نے 1986ء میں پاکستان کا دورہ کیا جس کی مدد سے پاکستان میں 5 جوہری بجلی گھر تعمیر کئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے 3 چشمہ اور 2 کراچی میں قائم کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین نے 2012ء میں نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا، جو پاکستان کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔
سیمینار میں شنگھائی انٹرنیشنل سٹڈیز یونیورسٹی کے سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر اعجاز حسین نے کہا کہ ایک پٹی ایک شاہراہ کی 6 راہداریوں میں سے سی پیک واحد راہداری ہے جسے دوطرفہ قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور چین کے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور چین کی جانب سے ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ اعجاز حسین نے کہا کہ حال ہی میں استوار ہونیوالے چین-ایران تعلقات کے مقابلے میں پاک-چین تعلقات 71 سال سے جاری ہیں اور پاکستان میں چینی سرمایہ کاری محدود ہونے کی وجوہات تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اس موقع پر ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کی لیکچرار حنا چوہدری نے کہا کہ ایک پٹی ایک شاہراہ کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس ضمن میں مغربی ممالک نے ہمیشہ ہرزہ سرائی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک پٹی ایک شاہراہ قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی کا منصوبہ ہے، جس پر دنیا کی 60 فیصد سے زائد تجارت انحصار کرتی ہے، جبکہ یہ منصوبہ حقیقی طور پر پوری دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست منسلک کرنے اور باہمی فوائد کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔ سیمینار میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین، صحافیوں، طلباء و طالبات اور مختلف حلقوں کے نمائندوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔