” نائن الیون ” واقعہ کو اب بیس برس ہو چکے ہیں ۔متعدد ممالک کے ماہرین ، دانشوروں اور سیاستدانوں نے اس موقع پر کہا کہ گزشتہ 20 سالوں میں دنیا بھر میں امریکہ کی “دہشت گردی کے خلاف جنگ” سلامتی اور استحکام” نہیں لا سکی ہے۔انسداد دہشت گردی کے لیے تمام ممالک کے درمیان اتفاق رائے، مضبوط تعاون اور جامع پالیسیوں پر عمل درآمد لازم ہے۔ کچھ ممالک کے لیے ذاتی مفادات کے حصول اور اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے یہ کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے۔
مصری کالم نگارمصطفی امین نے کہا کہ امریکہ نے “نائن الیون” واقعے کی وجہ سےافغانستان میں جنگ شروع کی ، جس سے بالواسطہ طور پر مشرق وسطیٰ میں گزشتہ 20 سالوں میں افراتفری نے جنم لیا ہے۔” نائن الیون ” امریکہ کے لیے علاقائی امور میں مداخلت کا بہانہ بھی بن چکا ہے۔
برطانیہ کی بکنگھم یونیورسٹی میں ڈیفنس سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے پروفیسر انتھونی گریس نے کہا کہ گزشتہ 20 سالوں میں امریکہ کی زیرقیادت مغربی ممالک افغانستان میں اپنی فوجی کارروائیوں میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں اور دہشت گردی اب بھی مغربی ممالک کو لاحق ایک بڑا خطرہ ہے۔
جنیوا میں “امن اور مفاہمت ریسرچ سینٹر” کے محقق محمد گوزیل نے کہا کہ پچھلے 20 سالوں میں امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکا ہے۔دراصل امریکی اقدامات نے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی میں مخصوص کردار ادا کیا ہے ۔
بیلجیئم کے مصنف اور “انویسٹی گیٹو ایکشن” ویب سائٹ کے بانی مشیل کولون نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز محض ایک حربہ ہے جس سے وہ اپنے زوال کو روکنے اور اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔