دس تاریخ کو چینی صدر شی جن پھنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت ہوئی جس میں چین امریکہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے متعلقہ امور پر واضح ، مفصل اور وسیع اسٹریٹجک تبادلہ خیال کیا گیا.اس دوران چینی صدر نے کہا کہ چین امریکہ تعلقات میں بہتری کے لیے اس سوال کا جواب ضروری ہے کہ کیسے اسے بہتر طور پر سرانجام دیا جائے۔شی جن پھنگ کے اس بیان کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔حقائق کے تناظر میں دنیا کے سب سے بڑے ترقی پزیر ملک اور سب سے بڑے ترقی یافتہ ملک کے طور پر چین اور امریکہ کا اپنے تعلقات کو صحیح طور پر سنبھالنا ، دنیا کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔ یہ “صدی کا سوال” ہے جس کا جواب دونوں ممالک کو دینا ہوگا۔ اس وقت چین اور امریکہ کے درمیان غیر معمولی پریشان کن تعلقات کی وجہ یہی ہے کہ امریکہ چین کے حوالے سے ایک بڑی اسٹریٹجک غلط فہمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چین کو ایک “خیالی دشمن” سمجھتا ہے اور چین کو مسلسل دباو میں لانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ اگر امریکہ چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا چاہتا ہے تو اسے چین کے بارے میں اپنی غلط پالیسی تبدیل کرنی چاہیے ، چین کو ایک خطرہ اور حریف کے طور پر دیکھنا ترک کرنا چاہیے ، اور چین کی خودمختاری ، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کو نقصان پہنچانا بند کرنا چاہیے۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ٹیلی فونک بات چیت کے دوران امریکی صدر بائیڈن نے فعال مکالمے اور تعاون کی جانب اشارہ کیا ہے اورنشاندہی کی کہ دونوں ممالک کے درمیان مسابقت کے باعث تنازعات میں پڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ امریکی بیانیہ اگرچہ اہم توہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے وعدوں کو صحیح معنوں میں پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔تاریخ اور حقائق ثابت کرتے ہیں کہ چین امریکہ تعاون ، دونوں ممالک اور دنیا کے مفاد میں ہے جبکہ تصادم سے دونوں ممالک اور دنیا کو نقصان ہوگا۔