تیس اگست کو افغانستان میں امریکہ کی چھیڑی ہوئی جنگ بیس برسوں کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔بیس برسوں میں نہ صرف مقامی عوام شدید مصائب کا شکار ہوئے بلکہ امریکہ نیز اتحادی افواج کو بھی وسیع پیمانے پر جانی نقصانات اور نفسیاتی دباو کا سامنا رہا ۔ بیس برسوں کی افغان جنگ سے امریکہ کو مندرجہ ذیل اسباق سیکھنے چاہیں:
پہلا، انسانی زندگیوں کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔2001کے “نائن الیون” سانحے میں ہلاکتوں کی تعداد 2996 تھی،جب کہ بیس برسوں کی افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 2443 جبکہ اتحادی افواج کی تعداد 1144 رہی۔بیس سالہ خانہ جنگی کے دوران افغان عوام کو زیادہ سنگین جانی نقصانات پہنچے ہیں ،چھیاسٹھ ہزار افغان سیکیورٹی اہلکار اور اڑتالیس ہزار عام افغان شہری جاں بحق ہوئے۔مزید یہ کہ امریکی ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں افغانستان اور پاکستان کے عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔امریکی براؤن یونیورسٹی کے ” کاسٹس آف وار” پروجیکٹ کی ایک رپورٹ کے بعد سال 2017 کے بعد امریکہ نے ڈرون حملوں کے ضوابط کو نرم کیا جس کے بعد امریکی اور اتحادی افواج کے فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے عام افغان شہریوں کی تعداد میں 330 فیصد کا اضافہ ہوا۔صرف سال 2019 میں ہی 700 افراد ہلاک ہوئے۔افغان جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد “نائن الیون” کی ہلاکتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دہشت گردی انسانیت کی مشترکہ دشمن ہے،لیکن امریکہ کو سوچنا چاہیئے کہ کیا انسداد دہشت گردی کے نام پر بے قصور عام شہریوں کو اپنی مرضی سے ہلاک کیا جا سکتا ہے؟
دوسرا،جبری جمہوریت مسلط کرنا ناقابل عمل ہے۔افغانستان میں تعمیر نو کے حوالے سے امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جنرل نے حال ہی میں ایک تجزیاتی رپورٹ جاری کی جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ بیس سالوں میں امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو پر 145 بلین جب کہ جنگ پر 837بلین امریکی ڈالرز خرچ کیے ہیں۔افغانستان میں طالبان قیادت کو برطرف کرتے ہوئے امریکہ نے اپنی حامی حکومت کے قیام میں مدد فراہم کی۔تاہم امریکی ماڈل افغانستان میں ناقابل عمل ہے۔امریکہ کی مدد سے قائم افغان حکومت کی انتظامی صلاحیت کمزور رہی جب کہ امریکہ کی تربیت یافتہ تین لاکھ سے زائد سرکاری فورسز نے بھی صرف دس روز میں طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ امریکہ کو سوچنا چاہیئے کہ کیا تعمیر نو کے نام پر دوسرے ممالک کے بنیادی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے جبری طور پر “امریکی ماڈل” لاگو کیا جا سکتا ہے؟
مزید اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کو یادر کھنا چاہیئے کہ دوسرے ممالک کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی نہیں کی جانی چاہیئے۔کوئی بھی ملک اپنے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا ہے اور اس میں طاقتور یا کمزور ممالک کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ خواہ ایک ملک کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو،وہ دوسرے ملک کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔لیکن امریکہ نے نہ صرف افغانستان میں دخل اندازی کی بلکہ پاکستان میں بھی ڈرون حملے کیے۔امریکی جنگ سے نہ صرف افغان عوام گہرے نقصانات سےدوچار ہوئے بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بھی بھاری معاشی دباو اور سیکیورٹی خطرات پیدا ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے محکمے کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان سے مجبوراً انخلا کرنے والے رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی تعداد 25 لاکھ ہے جبکہ حقیقی ڈیٹا اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے ۔ پناہ لینے والوں کی نوے فیصد تعداد ایران اور پاکستان میں موجود ہے۔
حقائق کے تناظر میں افغانستان میں امریکی کارروائی کو خود امریکی حلقوں کی حمایت حاصل نہیں رہی ہے۔ بارہ سے سولہ اگست تک جاری رہنے والے ایک سروے سے ظاہر ہوتاہے کہ باسٹھ فیصد امریکیوں کے خیال میں افغان جنگ لڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔امید ہے کہ امریکہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے گا ،غلطیوں کی تصحیح کرے گا،عالمی امن اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا ۔