حالیہ دنوں معروف ویب سائٹ ماڈرن ڈپلومیسی پر عرب محقق محمد زریک کا تحقیقی مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے کووڈ-19 کے ماخذ کی تلاش کے کام کو چین کے خلاف عہد حاضر کی “افیون کی جنگ” کے مترادف قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکی اسکالر کینتھ والٹز نے درست کہا تھا کہ ریاستیں بھی انسانوں کی فطرت کی طرح ہوتی ہیں جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی طرح کا انتثار پھیلا سکتی ہیں۔ سیاسی، عسکری، اقتصادی اور تکنیکی کشمکش میں جنگوں کا امکان موجود رہتا ہے لیکن جدید جنگوں کے طریقے روایتوں جنگوں سے مختلف ہو سکتے ہیں۔اٹھارویں صدی میں برطانیہ اور فرانس نے چین پر افیون کی جنگ مسلط کی اور ہانگ کانگ پر قبضہ کرلیا، اس دوران برطانیہ نے تمام عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا اور چین میں عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں کیں۔ چین پر مسلط کی گئی اس جنگ کا خاتمہ سنہ 1949 میں ماؤ زے تنگ کی قیادت میں نئے چین کے قیام کی صورت میں ہوا۔مغربی طاقتیں زمانہ قدیم سے ہی چینی قوم کی صلاحیتوں سے آگاہ ہیں۔ نپولین نے کہا تھا کہ چین ایک سویا ہوا شیر ہے اسے سویا ہی رہنے دو اگر یہ اٹھ گیا تو دنیا کو ہلا دے گا۔ مارکو پولو بھی ایک ایسی مغربی شخصیت ہیں جنہوں نے چین کے بارے میں بہت سا ادبی ورثہ چھوڑا ہے۔ آج کا چین شاندار انداز میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ چین نے وبا کے خلاف شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اپنے ممالک میں وبا پر قابو پانے میں ناکام ہونے والے ممالک چین پر وائرس کے ماخذ کی تلاش کے نام پر عہد حاضر کی” افیون کی جنگ” مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔منصنف نے زور دیا کہ وائرس کے ماخذ کی تلاش سائنسی کام ہے اور اسے سائنسی طریقہ کار سے ہی ہونا چاہیے۔