ستائیس اگست کو ، امریکہ کےڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر نے نام نہاد “نوول کورونا وائرس ٹریس ایبلٹی انویسٹی گیشن رپورٹ” کا خلاصہ جاری کیا ، جس میں کہا گیا کہ فی الحال نوول کورونا وائرس کے “لیبارٹری لیک “اور “قدرتی ماخذ ” سمیت دونوں امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ۔ رپورٹ میں چین کی بین الاقوامی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے ، معلومات کا اشتراک کرنے سے انکار کرنے اور دوسرے ممالک پر الزام تراشی کرنے پر تنقید کی گئی۔
اس بارے میں امریکہ میں چین کے سفارتخانے نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سب سے پہلے ، یہ بے بنیاد رپورٹ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی قیادت میں مرتب کی گئی ہے ، اور اس میں کوئی سائنسی معلومات اور قابل اعتماد مواد موجود نہیں ہے۔ نوول کورونا وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانا ایک سائنسی مسئلہ ہے ، اور اس کا مطالعہ انٹیلی جنس کے ماہرین کی بجائے، صرف اور صرف سائنسدان ہی کر سکتے ہیں۔
دوسرا ، امریکہ کا دعویٰ ہے کہ چین نےٹریس ایبلٹی کے مسئلے پر شفاف رویے کا مظاہرہ نہیں کیا، اس کے برعکس چین نے شروع سے ہی ایک سائنسی ، پیشہ ورانہ ، سنجیدہ اور ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا ہے ، اور ڈبلیو ایچ او کے ساتھ عالمی ٹریس ایبلٹی تعاون شروع کرنے میں سبقت لی ہے۔ پچھلے سال سے ، چین نے ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کو چین میں دو بار مدعو کیا تاکہ وائرس کی ٹریس ایبلٹی پر کام کیا جا سکے۔
تیسرا ، امریکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ سیاسی ہیرا پھیری کے غلط راستے پر بہت دور جا رہا ہے۔ امریکی حکومت نے وبا کے خلاف جنگ میں اپنی ناکامی کی ذمہ داری سے بچنے اور چین کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کا استعمال کیا تاکہ چین کو بدنام کیا جا سکے ۔
اس وقت تک امریکہ نے اپنے ملک میں وائرس کی ٹریس ایبلٹی کی اجازت نہیں دی اور ٹریس ایبلٹی کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ اگر امریکہ واقعی “شفاف اور ذمہ دار” ہے تو اسے شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے ملک میں ٹریس ایبلٹی کے راستے میں رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے۔