ستائیس تاریخ کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چاو لی جیان نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ وائرس سراغ ایک سائنسی مسئلہ ہے ، اور چین ہمیشہ سائنسی سراغ کی حمایت کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ترجمان نے کہا کہ امریکہ کو وائرس سراغ کے حوالے سے چند سوالات کے جوابات دینے چاہیں۔اول ، جولائی 2019 میں وسکونسن میں ای سگریٹ نمونیا کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کی علامات اور نوول کورونا وائرس کی علامات میں مماثلت ، دوم ، امریکہ کے قومی ادارہ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق دسمبر 2019 میں امریکہ کی پانچ ریاستوں میں نوول کورونا وائرس کیسز کے شواہد ۔سوم ، امریکی حکومت نے 2 جنوری 2020 سے قبل جمع کیے گئے خون کے نمونوں کو سیل کر دیا اور ” امریکی قومی سلامتی کے لیے وائرس سراغ کے اقدامات کو نقصان دہ” قرار دیتے ہوئے تحقیقات بند کر دیں۔چوتھا ، فلوریڈا شعبہ صحت کی ویب سائٹ نے 171 مقامی مریضوں کا ڈیٹا شائع کیا جن میں جنوری اور فروری 2020 کے دوران نوول کورونا وائرس کی علامات موجود تھیں۔ پانچواں ، امریکہ یا اس سے قریبی وابستہ ممالک کے 200 سے زائد افراد نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر کھلے عام بتایا کہ وہ نومبر 2019 کے اوائل میں ایسے مرض سے متاثر تھے جس میں کووڈ۔ 19 کا شبہ ہے۔چھٹا ، کوسٹا ریکا ، کینیا وغیرہ سمیت 12 ممالک نے کھلے عام کہا کہ ان کے ملک میں کووڈ۔19کا “پیشنٹ زیرو ” امریکہ سے آیا ہے۔ساتواں ، فورٹ ڈیٹریک اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کی کورونا وائرس کی تحقیق میں ناقص حفاظتی ریکارڈ ۔ترجمان نے کہا کہ چونکہ امریکہ کو اس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے تو وہ عالمی برادری کے سوالات کا سامنا کرے اور ڈبلیو ایچ او کو دعوت دے کہ وہ فورٹ ڈیٹریک اور یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا جائے تاکہ وائرس سراغ کی تفتیش کی جاسکے اور اصل حقائق بتائے جا سکیں۔ اگر امریکہ اس سے انکار کرتا ہے تو یہ امریکہ کے حقیقی چہرے کو مزید بے نقاب کرے گا جو وائرس سراغ پر سیاست کر رہا ہے۔