لامحدود خوشی_ گانگ رن بو چھی پہاڑ، تبت کے ہر رہائشی کے لئے مقدس مقام
سطح مرتفع کی پریاں-تبتی ہرن
ان خوبصورت تصویروں کو دیکھ کر آپ کو ضرور لگا ہوگا ہے کہ یہ تصاویر کسی پروفیشنل فوٹوگرافر نے کھینچی ہیں، لیکن حقیقت میں یہ تصاویر ایک تبتی ڈرائیور نے اپنے ہر روز کے سفر کے دوران کھینچی ہیں۔
“تبت،تبت، آپ کتنے خوبصورت ہیں۔”
یہ تعریف کسی ایسے شخص کی طرف سے نہیں ہے جس نے پہلی بار تبت کی زمین پر قدم رکھا ہے ، یا کسی غیر ملکی مسافر کی طرف سے بھی نہیں ہے۔بلکہ یہ الفاظ ایک تبتی ڈرائیور کے ہیں جس کا نام دازی ہے، ایک تبتی لڑکا جو 90 کی دہائی میں پیدا ہوا، ابھی ایک ٹریول کمپنی کا ڈرائیور ہے۔
سیاحتی ڈرائیور دازی اور ان کی گاڑی
دازی کا آبائی گھر لہاسا سے 56 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چراہ گاہی علاقہ میں ہے، ماضی میں اس کا پیشہ بکریاں چرانا تھا اور وہ اس کام میں بہت زیادہ مہارت رکھتا تھا ۔ جب وہ چھوٹا تھا، اس کا خاندان بہت غریب تھا، اس لئے اس نے اپنے گھر والوں کی مدد کے لئے 13 سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیا ۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ 30 سے زائد گائے اور بکریاں چراتا تھا ۔
اپنے خاندان کی آمدنی کو بڑھانے اور اپنے چھوٹے بھائی کو یونیورسٹی میں پہنچانے کے لئے ، 17 سالہ دازی نے لہاسا آگر کام کرنا شروع کیا۔ اس وقت “خوبصورت تبت کی تعمیر ” کی پالیسی کے تحت، تبت میں بہت زیادہ شاندار تبدیلیاں آئیں۔ تبت کا آسمان زیادہ نیلا ہو گیا، زمین زیادہ سر سبز ہو گئی اور پانی زیادہ شفاف اور ہوا زیادہ تازہ ہو گئی۔ تبت زیادہ خوبصورت اور مقبول بن گیا، اس لئے تبت میں سیاحتی صعنت تیزی سے ترقی کرنے لگی ۔ دازی نے گاڑی چلانا سیکھا ہے، اس نے جلد ہی ڈرائیونگ لائسینس حاصل کر لیا ۔یوں وہ ایک چرواہے سے ایک ڈرائیور بن گیا۔ ڈرائیونگ شروع کرنے کے ابتدائی پانچ سالوں میں وہ تین لاکھ پچاس ہزار کلو میٹر سے زائد کا سفر طے کر چکے ہیں۔ یہ فاصلہ زمین کے قطر سے 9 گنا زیادہ بنتا ہے۔
انہیں یہ کام بہت پسند ہے وہ ہر روز سیاحوں کو تبت کا دورہ کروا کر بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سیاحوں کو بتاتے ہیں کہ ان کا آبائی وطن کتنا خوبصورت ہے۔ “تبت، تبت، آپ کتنے خوبصورت ہیں۔” اگر چہ انہوں نے زبان و بیان کی خوبصورتی کا سہارا نہیں لیا، ان کے الفاظ میں موجود خوبصورتی ان کے سادہ الفاظ ، ان کے اپنی مٹی سے پیار اور اپنی زمین پر فخر کی وجہ سے ہیں۔
ایک مرتبہ تین غیر ملکی سیاح تبت کے سبزہ زاروں کو دیکھنا چاہتے تھے، دازی ان سیاحوں کو اپنے آبائی وطن میں لائے اور اپنے پچپن کا سبز گھاس کا میدان ان سیاحوں کو دکھایا ۔
2018 میں دازی تین غیر ملکی سیاحوں کو اپنے گھر میں لائے، دازی کی والدہ نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔
دازی اپنے آبائی شہر کے ترجمان کی طرح ہیں ، وہ تبت سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ اگر چہ انہوں نے تقریباً تبت کے تمام مقامات کا دورہ کیا ہے لیکن وہ اب بھی تبت کی مزید خوبصورتیوں کو دریافت کرنے کے لئے بے تاب ہیں ۔
دازی کی گاڑی میں ان کا خزانہ رکھا جاتا ہے ،یعنی ایک ڈرون، جو فضائی فوٹو گرافی کے لئے ہے ۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤ نٹ پر تقریباً ہر روز تبت کے شاندار خوبصورت مناظر کی تصاویر یا ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں ۔جن میں تبت کے خوبصورت مناظر کی ایک ویڈیو ، دو لاکھ چھیالیس ہزار مرتبہ دیکھی جاچکی ہے۔
ویڈیو کا عنوان:لا سرالو ویٹ لینڈ سے پوٹالا پیلس کا منظر
ایک بوسیدہ پرانی تصویر سے لے کر ایک خوبصورت فوٹو البم تک
” ماضی میں ہم بہت غریب تھے اس لئے ہمارے بڑے بیٹے کے بچپن کی بہت کم تصاویر ہیں ۔یہ بوسیدہ اور پرانی تصویر واحد تصویر ہے۔” دازی نے کہتے ہوئے میز کی طرف اشارہ کیا ۔ میز پر ایک بوسیدہ اور پرانی تصویر موجود ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ اور خوبصورت فوٹو البم بھی ہے جو دازی کے چھوٹے بیٹے کا ہے۔ دازی نے بتایا کہ گیارہ سال پہلے جب ان کا بڑا بیٹا پیدا ہوا، وہ بہت غریب تھے، یہاں تک کہ فوٹو سٹوڈیو میں تصویر بنانےکے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ حالیہ دس سالوں میں تبتی لوگوں کی زندگی بہت زیادہ بہتر ہو گئی ہے، دازی کے وطن میں تمام چرواہے بھی غربت سے نکل چکے ہیں۔ 2020 میں دازی کا دوسرا بیٹا پیدا ہوا۔ دازی نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا کہ یہ چھوٹا بیٹا اچھے دورمیں پیدا ہوا ہے۔ چھوٹے بیٹے کے سویں دن کے موقع پر، دازی اپنے بیٹے کو لے کر فوٹو سٹوڈیو گئے اور تصاویر کا ایک مکمل سیٹ لیا۔ یہ سیٹ نئے دور کا گواہ ہے۔
2010 میں پیدا ہونے والےبڑے بیٹے کی پرانی اور بوسیدہ تصویر
2020میں پیدا ہونے والا چھوٹے بیٹے کی عمدہ اور خوبصورت تصاویر کا البم
امید ہے کہ مستقبل میں میرے بیٹے بیجنگ یونیورسٹی یا چھینگ حوا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں گے۔
دازی کے بڑے بیٹے لا با چھو سانگ کی عمر گیارہ سال ہے، ابھی تیسرے گریڈ میں پڑھتا ہے۔اپنے چھوٹے بھائی کے مقابلے میں لا با چھو سانگ کی بچپن کی تصاویر بہت کم ہیں ،لیکن اپنےوالد کے مقابلے میں اسے تعلیم کا بہترین ماحول اور حالات میسر آئے ہیں۔ لا با چھو سانگ کے پاس اپنا اسٹیڈی روم اور خصوصی تحریری میز ہے۔ جب لا با چھو سانگ روزانہ سکول سے واپس آتا ہے تو وہ اپنی پڑھنےکی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔یاد رہے کہ دازی غربت کی وجہ سے اپنے والدین اور چھوٹے بھائی کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتے تھے اور 13 سالہ کی عمر میں انہوں نے اسکول کو چھوڑ دیا تھا۔ اب زندگی بہت زیادہ بہتر ہو گئی ہے، اس لئے دازی اپنےبچوں کو پڑھنے کا اچھا ماحول فرہم کرسکتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ بچے اچھی طرح پڑھیں گے ۔
لا با چھو سانگ تبتی زبان کا مضمون پڑھ رہا ہے۔ شائد آپ نہیں جانتے کہ وہ کون سا مضمون پڑھ رہا ہے۔ نصابی کتاب پر دیکھا جائے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مضمون مختلف اوزاروں کے بارے میں ہے جو چرواہے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اوزار خیمہ لگانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، یہ دودھ میں سے مکھن نکالنے کے لئے اور کچھ بنانے سے متعلق ہیں ، اور چھینگ کھہ یعنی تبتی گندم رکھنے کے لئے تھیلے بھی موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اوزار ایسے ہیں جو چرواہے آج بھی استعمال کرتے ہیں۔
بڑے شہروں میں بچے ان آلات کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، تاہم نصابی کتب کے ذریعے نہ صرف ان بچوں کو ان روایتی آلات کا استعمال سکھایا جاتا ہے بلکہ تبتی قومیت کی زبان اور ثقافت بھی منتقل کی جاتی ہے۔
چین کی قومی زبان ،تبتی زبان ، انگریزی اور ریاضی جیسے تمام مضامین میں ، لابا چھو سانگ کے گریڈ کلاس میں پہلے نمبر پر ہیں۔
دازی کے گھر میں ایک نمایاں جگہ پر ذہنی ریاضی کے شاندار انعام کی ایک ٹرافی موجود ہے ،جو لا با چھو سانگ نے کنڈرگارٹن میں جیتی تھی۔ دازی نے کہا کہ بہت زیادہ ٹرافیاں گاؤں میں پچوں کے دادا دادی کے گھر میں لائی گئی ہیں۔ بڑے بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے دازی کے چہر ے پر ایک فخریہ مسکراہٹ آ جاتی ہے۔
شادی کے موقع پر ان کے لباس کے بارے میں
17 سالہ دازی اپنے خاندان سے نکل کر لہاسا آ گئے۔ انہوں نے ٹیکسی چلائی، ڈلیوری بوائے کے طور پر کام کیا، چائے خانہ کھولا اورتبت کی روایتی اگربتیوں کا کاروبار بھی کیا۔ آخر میں وہ اب ایک سیاحتی ڈرائیور بن چکے ہیں۔ دازی کی بیوی گے سانگ چھو زن 19 سال کی عمر میں لہاسا آگئی۔ ان کا پہلا کام چائے خانے میں تھا، اس وقت ان کی ماہانہ تنخواہ صرف 200 یوآن تھی۔پھر انہوں نے پیٹرول اسٹیشن میں کام کیا۔ پیٹرول اسٹیشن پر دازی اور ان کی بیوی کی ملاقات ہوئی، دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے اور سال 2010 میں ان کی شادی ہوگئی۔
غربت کی وجہ سے ، شادی کا سرٹیفکیٹ لینے کے لئے دازی کی بیوی نے پیٹرول اسٹیشن کے یونیفارم میں شادی رجسٹر کروائی، اس خاص موقع پر کوئی نیا لباس نہیں خریدا گیا۔ دونوں میاں بیوی کو یہ بات آج بھی یاد ہے۔ نکاح نامہ حاصل کرنے کے موقع پر بنوائی گئی تصویر ان کی زندگی کی قیمتی یادگار ہے، اس تصویر میں نہ صرف ان کی محبت دکھائی دیتی ہے بلکہ تبت کی ترقی بھی دکھائی دیتی ہے اور اس نوجوان جوڑے کی جدوجہد بھی دکھائی دیتی ہے۔دس سال پہلے ، ان دونوں کی کل ماہانہ تنخواہ صرف 2000 یوان تھی، جن میں سے 300 یوان کرایہ ادا کر دیا جاتا تھا۔ لیکن آج وہ لہاسا میں 93 مربع میٹر کا تین کمرے کا اپارٹمنٹ خرید چکے ہیں ، آج ان کے ساتھ ان کے دو پیارے بیٹے بھی ہیں ۔ ماضی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ، پھولوں جیسی خوشی نے ان دو نوجوانوں کے چہروں کو بھر دیا۔
دازی کا گھر بالکل تبتی انداز کاہے۔ ایک پرانی الماری کافی نمایاں ہے۔ دازی نے کہا کہ یہ الماری ان کی شادی کے وقت خریدی گئی ۔ اگر چہ آج ان کے پاس اپنا مکان ہے اور انہوں نے بہت سا نیا فرنیچر بھی خرید لیا ہے ، لیکن انہوں نے پرانی الماری کو نہایت محبت کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہے، چونکہ یہ ان کی جدوجہد سے بھرپور زندگی میں آنے والی خوشگوار تبدیلیوں کا ثبوت ہے۔
دازی نے کہا کہ وہ مستقبل میں ایک اور بڑا مکان خریدیں گے اور سجاوٹ کا انداز بھی تبدیل کریں گے۔” لیونگ روم میں ایک بڑا صوفہ ہونا چاہیئے، اور ایک بالکنی بھی ہونی چاہیئے جہاں ہم بیٹھ کر چائے پی سکتے ہوں۔ بالکنی میں چائے کا سیٹ، پھول، سب کچھ موجود ہوں۔ موسم سرما میں ہم دوستوں کے ساتھ بالکنی میں بیٹھ کر چائے پئیں اور بات چیت کریں ۔”
دازی کا خواب سادہ اور رومانوی ہے ،زیادہ مشکل نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں تبت میں نقل و حمل اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی مسلسل بہتری کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ سیاح تبت آنے لگے ہیں ۔ تبت میں سیاحتی صنعت پھل پھول رہی ہے، جس سے عام شہریوں کو بھی بہت زیادہ فائدہ ملا ہے اور وہ امیر بن چکے ہیں۔ دازی ان میں سے ایک ہیں۔
ماضی میں موسم سرما تبت میں سیاحت کا آف سیزن ہوا کرتا تھا، سیاحوں کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی بھی متاثر ہوتی تھی ۔ لیکن 2018 سے تبت میں ” موسم سرما میں تبت کی سیر” کی سرگرمی کا آغاز ہوا، جس کے دوران تبت کے تمام سیاحتی مقامات کی ٹکٹ مفت ہے۔ اس لئے اب بہت زیادہ سیاح موسم سرما میں تبت آتے ہیں۔ 2018 میں صرف لہاسا شہر میں چینی اور غیر ملکی سیاحوں کی تعداد ایک کروڑ ننانوے لاکھ دو ہزار تک جا پہنچی تھی، اس سرگرمی سے ہونےو الی سیاحتی آمدنی اٹھائیس ارب ستائیس کروڑ ساٹھ لاکھ یوان تھی۔ دازی نے کہا کہ سال 2018 ان کے لئے سب سے مصروف سال تھا، اس سال انہوں نے ایک لاکھ کلومیٹر سے زیادہ گاڑی چلائی، اس دوران انہیں بہت زیادہ آمدنی حاصل ہوئی۔ یہ موسم سرما ان کے لئے بہار جیسا تھا ۔
بیتے دنوں کو یاد کرتے ہوئے دازی کی بیوی نے کہا کہ ان کی زندگی کافی بہتر ہو گئی ہے، تبت زیادہ خوبصورت ہے اور زندگی زیادہ پر مسرت ہو گئی ہے۔
دازی کی بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا”کبھی کبھار میں اپنے آپ سے حسد کرتی ہوں ،میں نے ایک اتنے اچھے شوہر سے شادی کی اور ہم ایک ساتھ اپنے خاندان کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔”
تبی کیلنڈر کے مطابق پندرہ تاریخ کے دن ، دازی کے والدین مذہبی مقامات کی زیارت کے لئے اپنے آبائی علاقے سے لہاسا آ گئے۔ دازی کی ماں اور بیوی نے ایک ساتھ تبتی کھانا پکایا۔ دازی نے کہا کہ جب میرا بیٹا پیدا ہونے والا تھا، ان دنوں میری بیوی نے تبتی کھانا پکانا سیکھا ہے، وہ بہت لذیز کھانا پکا سکتی ہیں۔ موقع ملا تو ہم بیجنگ میں ایک تبتی ریسٹورینٹ چلائیں گے۔
تبی کیلنڈر کے مطابق پندرہ تاریخ کو دازی کے والدین آبائی علاقہ سے لہاسا آ گئے، تمام اہل خانہ نے ایک ساتھ تصویر بنوائی۔
یاک کی کمر محراب دار ہے، جب یہ بہت زیادہ کھانا کھائے گا تو اسے اطمینان ملے گا لیکن انسان کی کمر سیدھی ہے، یہ کبھی مطمین نہیں ہو تا۔ دازی نے اس تبتی مہاورے کے ذریعے اپنی امید اور خواہش کا اظہار کیا۔