امریکہ کے پاس نوول کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔ لوگوں کے پاس اس مفروضے پر یقین کرنے کے لئے ایک بہترین مثال موجود ہے جو سابق امریکی صدر کی ہے۔ اگر فرض کر کیا جائے کہ اس صلاحیت کا فقدان ہے توسابق امریکی صدر جیسے بزرگ مریض کو فوری طورپر کیسے ٹھیک کیا جاسکتا تھا اور کیسے وہ پلک جھپکتے ہی صحت یاب ہوکر ہسپتال سے ڈسچارج ہوگئے۔ اس صورت حال میں ناقابل یقین بات یہ ہے کہ امریکہ میں وبا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 36 ملین سے زائد ہے اور بدقسمتی سے چھ لاکھ سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ یہ صورت حال امریکی سیاسی نظام میں موجود وسیع تفریق کی نشاندہی کرتی ہے۔
تین چینی تھنک ٹینکسں نے حال ہی میں مشترکہ طور پر ایک تحقیقی رپورٹ ” امریکہ فرسٹ؟ “جاری کی۔امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی کے مابین جاری طویل مدتی پرتشدد جدوجہد نے پورے امریکی معاشرے کو سیاسی طور پر تقسیم کردیا ہے۔ نوول کورونا وائرس وبا کے مقابلے میں سیاستدان سائنس کی نفی کرتے ہوئے ناقابل یقین سیاسی باتیں کرتے رہے اور قوم کو یکجا کرنے کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کے لئے تقسیم کرتے رہے۔اس افسوسناک سیاسی صورت حال کی وجہ سےامریکہ جس کے پاس دنیا کی بہترین طبی ٹیکنالوجی ، صلاحیتیں اور وسائل موجود ہیں ، وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے مقابلے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ۔ وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے اقدامات کے بارے میں وفاقی حکومت کی رہنمائی کا فقدان ، طبی سامان کی خریداری کے لئے مالی اعانت میں سست روی ، اور سیاسی افراتفری نے امریکہ کی وفاقی ، ریاستی اور مقامی حکومتوں کو وبا کے خلاف جنگ میں ناکامی سے دوچار کردیا۔ کچھ ریاستوں نے تو ویکسینیشن منصوبوں کا بائیکاٹ کیا۔اس ابتر صورت حال کا شکار آخرمیں امریکی عوام ہوئے۔ امریکن سی ڈی سی کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اگست کے آغاز کے بعد سے ، امریکہ میں یومیہ کیسز کی اوسط تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور ہسپتالوں میں علاج کے لئے آنے والوں کی اوسط تعداد گزشتہ چھ ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔موجود صورت حال میں وبا کے پیش نظر امریکہ دنیا کا پہلا سیاسی طور پر تباہ حال ملک بن چکا ہے۔ اور اس صورتحال نے امریکہ کو وبا کے سامنے ناکامی سے دوچار دنیا کا پہلا ملک بنا دیا ہے۔