امریکہ کی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف ۴ فیصد ہے ، لیکن یہاں پر کووڈ-۱۹کے موجودہ تصدیق شدہ کیسز دنیا کے ۱۸ فیصد ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ وبا کے خلاف عالمی جنگ میں ناکام رہا ہے۔مزید غلط بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اپنے ملک میں وبا پر قابو نہ پانے کے کوئی موثر اقدامات نہیں اپنائے ، بڑی تعداد میں امریکی افراد نے بیرونِ ملک سفر کیا جس سے وائرس دنیا کے تمام حصوں میں پھیلتا رہا اور دنیا بھر کے لوگوں کی زندگیوں اور صحت کے لیےخطرے کا باعث بنا ۔ امریکہ ، “وبا پھیلانے والے سب سے بڑے ملک ” کے اس الزام سے بچ نہیں سکتا۔معیشت کی حفاظت اور ووٹ جیتنے کے لیے امریکی حکومت نے گذشتہ سال اگست میں وبا کے پھیلاؤ کے عروج پر امریکی شہریوں پر عالمی سفری پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔امریکہ کے قومی دفتر برائے امور سیروسیاحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل۲۰۲۰سے مارچ۲۰۲۱ تک ۲۳ ملین سے زائد امریکی شہریوں نے زمینی اور فضائی راستوں سے دنیا کے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔ اس کے نتیجے میں ، وبا کاعالمی پھیلاؤ تیز تر ہو گیا ۔ مختلف ممالک کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ، اسرائیل میں ۷۰ فیصد مصدقہ کیسز امریکہ سے آنے والے وائرس سے متاثر ہوئے تھے، جنوبی کوریا میں درآمد کیے گئے ۷۰۰۰ کیسز میں سے ۳۰ فیصد امریکہ سے تھے ، اور آسٹریلیا میں ۷۰۰۰مصدقہ کیسز کا ۱۴ فیصد امریکہ سے درآمد ہوا تھا۔
اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ امریکہ بین الاقوامی اخلاقیات کو یکسر نظر انداز کر رہا ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر وبا کی روک تھام کے مناسب اقدامات کو اپنائے بغیر واپس بھیج رہا ہے۔ کچھ ایسے واقعات بھی ہیں کہ امریکی فوجی اڈوں کے فوجی اہلکار انسدادِ وبا کے مقامی اقدامات کو نظرانداز کرتے ہوئے وبائی صورتحال کو مزید سنگین بنانے کا باعث بنے ہیں۔
مذکورہ سلسلہ وار حقائق سے ظاہر ہے کہ امریکہ عالمی وبا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ہے اور وائرس کے ماخذ کی کھوج کے لیے امریکہ میں بھی تحقیقات کی جانی چاہیئں۔