امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پانچ اگست تک امریکہ میں کووڈ-19 کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد تین کروڑ چون لاکھ سات ہزار چھ سو تراستی تک پہنچ چکی تھی۔ وبا کی وجہ سے امریکہ میں ہونے والی اموات کی تعداد بھی چھ لاکھ پندرہ ہزار دو سو پندرہ ہوچکی ہے۔ اس وقت امریکہ دنیا میں وبا کی سب سے سنگین صورت حال کا حامل ملک ہے۔مختلف نشانیاں بتاتی ہیں کہ امریکہ میں متعلقہ لیبارٹریز طویل عرصے سے کورونا وائرس کی ترکیب اور ترمیم کے لیے خطرناک تجربات کر رہی ہیں۔ مثلاً براؤن یونیورسٹی میں واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کے سینئر محقق اسٹیفن کنزر نے حال ہی میں نشاندہی کی کہ امریکہ کی فورٹ ڈیٹریک بائیولیب طویل عرصے سے مہلک پیتھوجینز کا مطالعہ کرتی رہی ہے اور یہاں ہر قسم کے حیاتیاتی ہتھیار اور زہر تیار کئے جاتے رہے ہیں۔ چیپل ہل میں واقع نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے پروفیسر رالف بیرک نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ جینیاتی بحالی اور مصنوعی حیاتیات جیسی ٹیکنالوجیز میں حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ اس کے علاوہ رالف بیرک کی حیاتیاتی لیبارٹری کی حفاظت کا ریکارڈ تشویش ناک ہے۔ امریکہ کی غیر منافع بخش نیوز سروے ویب سائٹ “فار پیپلز” کے مطابق یکم جنوری 2015 سے یکم جون 2020 تک، اس لیبارٹری نے امریکہ کے قومی ادارہ برائے صحت کو جینیاتی طور پر تبدیل کئے گئے اٹھائیس حیاتیاتی اجسام کی لیبارٹری سکیورٹی حادثات کی رپورٹ پیش کی، ان میں سے چھ حادثات مختلف قسم کے کورونا وائرس سے متعلق تھے۔ایک طرف امریکہ وائرس کے ماخذ کے حوالے سے سیاست کر رہا ہے اور چین پر الزام تراشی کر رہا ہے ،جبکہ دوسری طرف عالمی برادری نے امریکہ کی فورٹ ڈیٹریک بائیولیب پر توجہ دی ہے۔ کچھ عالمی میڈیا اور شخصیت نے نشاندہی کی کہ وائرس کے ماخذ کا سراغ لگانے کے فروغ کے لئے مشکوک امریکہ کی پہلے تحقیق کرنی چاہیے۔