چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لی جیان نے۲۶ جولائی کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ حالیہ عرصے میں عالمی برادری نے کووڈ-۱۹ کے ماخذ کا سراغ لگانے کے معاملے پر کی جانے والی امریکی سیاست کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ساتھ ہی امریکہ کی فورٹ ڈیٹرک بائیو لیب کو شامل تفتیش کرنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔امریکہ کو فوری طور پر ایک شفاف اور ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کو امریکہ بلانا چاہیے تاکہ وہ فورٹ ڈیٹرک بائیو لیب سے متعلق تحقیقات کریں اوردنیا کو سچائی بتا سکیں۔ امریکی فوج کی فورٹ ڈیٹرک بائیو کیمیکل ویپن ریسرچ بیس میں کتنے راز چھپے ہیں ؟اس مرتبہ ہم سن ۱۹۷۷ میں مصر میں اچانک پھوٹنے والے رفٹ ویلی فیور ( آر وی ایف ) کی بات کرتے ہیں۔ سن ۱۹۷۷ میں مصر میں اچانک ایک وبائی مرض پھوٹنے لگا۔پورے ملک میں بیس لاکھ سے زائد افراد آنکھوں میں انفیکشن ، بخار اور پٹھوں میں درد کی علامات کے ساتھ ہسپتالوں میں داخل ہوئے ۔ مقامی محققین نے خون کے نمونوں میں آر وی ایف وائرس دریافت کیا تاہم معمول کا یہ وائرس جان لیوا نہیں تھا جب کہ مصر میں پھوٹنے والےاسی وائرس کے باعث شرح اموات کافی زیادہ تھی ۔ یہ قیاس کیا گیا کہ اس وائرس کو مصنوعی طور پرزیادہ طاقت ور بنایا گیا ہے۔لیکن وائرس کی اس غیر معمولی طاقت کا راز ۲۶ سال تک کسی کو نہیں پتہ چلا۔چھبیس سال بعد سن ۲۰۰۳ میں سامنے آنے والی تاریخی دستاویزات سے منکشف ہوا کہ سن ۱۹۷۷ میں فورٹ ڈیٹرک کے ایک اہلکار ڈیوڈ ہکسسول کا ایک سپاہی، رفٹ ویلی فیور کا وائرس لے کر قاہرہ میں واقع امریکی نیوی کی سائنسی تحقیقاتی اکیڈمی گیا۔اسی سال مصر میں بیس لاکھ سے زائد افرا د اس وائرس سے متاثر ہو کر ہسپتالوں میں داخل ہوئے ۔ امریکی صدر آئزن ہاوور کے دور میں فورٹ ڈیٹرک کے ریسرچرز کا خیال تھا کہ “رفٹ ویلی فیور” بے حد مناسب بائیو ہتھیار ہے اور آئزن ہاوور اس خیال کی تائید کرتے تھے اور اس کے لیے مالی مدد بھی فراہم کی ۔امریکی فوج نے پوری دنیا میں امریکی نیوی کی سائنسی تحقیقاتی اکیڈمی جیسی دو سو سے زائد لیبارٹریز قائم کی ہوئی ہیں۔