چھبیس جولائی کو چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے شہر تھیان جن میں امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران وانگ ای نے کہا کہ موجودہ چین -امریکہ تعلقات سنگین مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں اس وقت سوچنا ہوگا کہ ہمار ا اگلا قدم تنازعات یا محاذ آرائی کی طرف بڑھنا ہے یا بہتری اور ترقی کی جانب۔ اس وقت امریکی فریق کو محتاط طور پر سوچنے اور صحیح انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی امریکی حکومت نے چین کے بارے میں سابقہ انتظامیہ کی غلط پالیسیوں کو جاری رکھا ہے ، جس سے چین کے صبر کی آخری حد کو مستقل طور پر چیلینج کیا جارہا ہے ، اور چین پر قابو پانے اور دباؤ ڈالنے کی کوششوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔چین اس کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
وانگ ای نےزور دیتے ہوئے کہا کہ میں امریکہ کو واضح طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ چینی منڈی میں ترقی اور بحالی کی بڑی اندرونی قوت موجود ہے اور یہ ترقی کا ناگزیر رجحان ہے۔چینی خصوصیات کا حامل سوشلزم چین کے قومی حالات اور ضروریات کو پوری طرح سے پورا کرتا ہے ، اور اس نے کامیابی حاصل کی ہے اور یہ سفر جاری رہے گا۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور چینی عوام کا رشتہ جسم اور روح کا رشتہ ہےدونوں مشترکہ خوشحال مستقبل کی جستجو کررہے ہیں۔سی پی سی کو ہمیشہ ایک ارب چالیس کروڑ چینی عوام کی حمایت حاصل ہے۔ چینی قوم اپنی نشاۃ الثانیہ کی راہ پر گامزن ہوچکی ہے، اور کوئی طاقت یا ملک اس سفر کو روک نہیں سکتی۔ چین میں تمام نسلی گروہوں کے لوگوں کو جدید زندگی دینا انسانی تہذیب اور ترقی کا ایک بہت بڑا عمل ہے اور کوئی طاقت یا ملک اسے روک نہیں سکتا ہے۔
وانگ ای نے نشاندہی کی کہ دونوں فریقوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لئے چین تین بنیادی تجاویز پیش کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ وہ تین بنیادی آخری حدیں بھی ہیں جنہیں چین پار کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
پہلا، امریکہ کو چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے راستے اور نظام کو خراب ،چیلنج ، یہاں تک کہ اس کی مخالفت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ چین کا یہ راستہ اور نظام تاریخ اور لوگوں کا انتخاب ہے۔ یہ ایک ارب چالیس کروڑ چینی عوام کی طویل مدتی فلاح و بہبود اور چینی قوم کے مستقبل اور تقدیر سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔ یہ بنیادی مفاد ہے جس پر چین عمل پیرا ہے۔
دوسرا ، امریکہ کو چین کی ترقی کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے سے باز رہنا چاہئے۔ جدید یت محض امریکہ کا خصوصی حق نہیں ہے۔ یہ چین اور چینی عوام کا بھی بنیادی حق ہے۔ اس کا تعلق بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف سے ہے۔
تیسرا ، امریکہ کو چین کی قومی خودمختاری کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے ، چین کی علاقائی سالمیت کوبھی نقصان نہیں پہنچانا چاہیئے۔ سنکیانگ ، تبت ، اور ہانگ کانگ سے وابستہ امور کبھی بھی انسانی حقوق یا جمہوریت سے متعلق مسائل نہیں رہے ہیں۔ یہ “سنکیانگ کی علیحدگی” ، “تبت کی علیحدگی” ، اور “ہانگ کانگ کی علیحدگی” کی کوششو ں سے جڑے بڑے مسئلے ہیں۔چین کسی بھی ملک کو اپنی قومی خودمختاری اور سلامتی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ جہاں تک تائیوان کے معاملے کی بات ہے ، تو یہ اور بھی اہم ہے۔ اگرچہ آبنائے تائیوان کے دونوں فریقین ابھی تک ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد نہیں کر سکے ہیں ، لیکن بنیادی حقیقت یہ ہے کہ چائنیز مین لینڈ اور تائیوان کا تعلق ایک چین سے ہے اور یہ کہ تائیوان چینی سرزمین کا حصہ ہے اور اسے کبھی جدا نہیں کیا جا سکتا۔