ایک میڈیا کارکن کی حیثیت سے ، میں اکثر اپنے دفتر میں پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر تبادلہِ خیال کرتا رہتا ہوں ۔ جب چین کے بارے میں ان کے سوالات اور ابہام سامنے آتے ہیں ، تو میں اپنے علم کے مطابق ان کے ساتھ گفت و شنید کرتا ہوں تاکہ وہ چین کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ حال ہی میں ، پورے چین میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 100 ویں سالگرہ کو بے حد گرم جوشی سے منایا گیا۔ اسی موضوع پر ایک دن میری پاکستانی ساتھیوں سے اس حوالے سے بات چیت ہو رہی تھی کہ چینی عوام کمیونسٹ پارٹی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ذیل میں پاکستانی ساتھیوں زبیر اور شاہد کےساتھ ہونے والی اس بات چیت کو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ یہ بات چیت محض بات چیت ہی نہیں بلکہ سی پی سی کی تاریخ اور چین کی ترقی کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔
دیوار چین پر کوکا کولا پینے والا چینی لڑکا،۱۹۷۹
ہماری بات چیت کا موضوع یہ تھا کہ آخر سی پی سی کو حاصل ہونے والی عوامی مقبولیت اور حمایت کی اصل وجہ کیا ہے؟
میں: اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ آپ چین میں ہیں اور آپ کو اس ملک اور یہاں کے لوگوں کی زندگی کو محسوس کرنا چاہیے اور ا س کا مکمل مشاہدہ اور تجربہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی ملک کا نظام اور معاشرت اتنی سادہ نہیں ہوتی کہ فوراً سمجھ آجائے ۔ چند جملوں کے ساتھ خبروں کا ایک ٹکڑا ،ایک تصویر یا ایک ٹی وی رپورٹ، یہ چین نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں آپ جو دیکھ رہے ہیں ،یہ سب وہ نہیں ہے جو آپ نے غیر ملکی میڈیا پر دیکھا یا سنا کہ چینی عوام ایک دباؤ والے سخت گیر نظام کے تحت پریشان اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔یہ چینی عوام ، جنہیں آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، دنیا کے تمام ممالک کے عوام کی طرح ہیں۔ان کی زندگی میں بھی وہی خوشیاں ہیں ، غم ہیں وہی ہجر و وصال کی کیفیات ہیں اور وہی دکھ سکھ ہیں جیسے آپ سب کی زندگیوں میں اور بحیثیتِ قوم وہ ہرگز خوفزدہ یا افسردہ نہیں ہیں ۔
زبیر:جی لیو صاحب ، میرا سب سے بڑا مشاہدہ یہ ہے کہ چینی عوام زندگی کے بارے میں بہت پر امید ہیں ، ان کے دل مطمئن اور خوش ہیں ، انہیں اپنی حکومت اور سی پی سی پر بہت زیادہ اعتماد ہے ، اور وہ ان کے معاون ہیں۔
میں:جی اور اس کی وجہ صاف ہے ۔گزشتہ 40 سالوں میں چینی لوگوں کی زندگی میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ ہمارے تصور سے باہر ہیں۔میں آپ کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں تاکہ آپ ان تبدیلیوں اور اس اطمینان و اعتماد کا تجزیہ کرسکیں۔ 40 سال پہلے ، میں اپنے والدین اور اپنی بہن کے ساتھ 10 مربع میٹر کے ایک چھوٹے کمرے میں رہتا تھا۔ جب میری بہن بڑی ہو گئی تو ماں باپ کے ساتھ ایک چارپائی پر سونا مناسب نہیں رہا۔ اس لیے گھر کے دیوار میں نصب ایک الماری کو خالی کر کے الماری میں ایک چھوٹا سا بستر لگایا گیا۔ پھر میری بہن اس الماری میں سوتی جب کہ میرے والدین اور میں ایک بڑے بستر پر سوتے تھے۔ اس زمانے میں عام چینی خاندانوں کا طرزِ رہائش اسی طرح کا تھا ۔
زبیر: کیا اس وقت پورے چین میں عمومی طور پر یہی رہائشی صورتحال تھی؟
میں:جی ، میرا گھر بیجنگ میں ہے۔ اس زمانے میں بیجنگ ، بہترین رہائشی ماحول کا حامل چین کا سب سے امیر شہر تھا ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت میرے والدین کی ماہانہ آمدنی کیا تھی؟ ایک سو یوآن ماہانہ سے بھی کم ، جو کھانے پینے اور لباس سمیت کنبے کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے نا کافی تھی۔ عام طور پر مہینے کے آخر میں کوئی پیسہ نہیں ہوتا تھا ۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں سے قرض لینا پڑتا تھا۔ اس وقت چین میں خوراک اور روزمرہ ضروریات کی اشیا کی انتہائی قلت تھی ، اناج ، تیل اور گوشت کو ماہانہ انفرادی کوٹے کی بنیاد پر مہیا کیا جاتا تھا ۔اس لئے اس زمانے میں اس نظام کے تحت راشن ٹکٹ ، لباس کے ٹکٹ ، تیل کے ٹکٹ ، گوشت کے ٹکٹ حتی کہ چینی کے لیے بھی ٹکٹ دیئے جاتے تھے۔ آپ کو بتاوں کہ میری عمر اس وقت سات آٹھ سال تھی جب پہلی مرتبہ میں نے دودھ پیا تھا ۔لیکن اس وقت ، میں ایسا بالکل نہیں سوچتا تھا کہ ہماری زندگی بہت مشکل ہے ، کیوں کہ ہمارے پاس کم از کم پیٹ بھرنے کا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت ، چین کے بہت سے دیہی علاقوں میں خوراک اور لباس جیسی بنیادی ضروریات کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا ۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں ، میرے کالج کے ساتھی سوشل سروے کے لئے مغربی چین کے دیہی علاقوں میں گئے اور دیکھا کہ کچھ گھروں کی لڑکیاں باہر نہیں نکل سکتی تھیں کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ کیوں ؟ کیونکہ ان کے پاس پہننے کے لیے پینٹس یا پاجامے نہیں تھے۔محض 40 سال پہلے ، چین اس قدر غریب ملک تھا۔ میرا ایک رشتہ دار تھا ، بیجنگ میں چار افراد پر مشتمل کنبہ تھا ان کا اور ان میں سے تین بیجنگ کے مقامی شہری نہیں تھے ، لہذا ان تینوں کے پاس کھانے کے ٹکٹ یعنی کوٹہ نہیں تھا، جس کا مطلب ہے کہ انہیں بھوک کے مسئلے کا سامنا تھا ۔ لہذا جب ہماری امی ہمیں ان کے گھر لے جاتیں تو وہ ایک بیگ میں روٹیاں بھر کر ان کے لیے تحفے کے طور پر لےجاتی تھیں ۔ اتنے برس بیت گئے ہمارے دونوں خاندانوں کے مابین بہت اچھے تعلقات رہے ہیں اور وہ اس دور میں کی جانے والی مدد کے لیے ہمیشہ مشکور رہے ۔ اس زمانے میں اپنے محدود کوٹے سے کسی دوسرے کے لیے روٹی نکالنا ، دوستی اور خلوص کے جذبات سے زیادہ بڑھ کر کسی جذبے کی عکاسی تھی۔
شاہد: آپ کی آپ بیتی سن کر ششدر رہ گیا ہوں ، میں واقعی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ چالیس سال پہلے کے چین اور اب کے چین کے درمیان اتنا بڑا فرق ہے ۔
میں: ہاں ، ہم نے پچھلے 40 سالوں میں اپنی زندگیوں میں ہونے والی بڑی بڑی تبدیلیوں کو دیکھا ہے یہ سب بہت متاثرکن ہے اور تبدیلیوں کے اس تمام دور سے ہمارا جذباتی تعلق ہے ۔اب جب آپ چین میں ہیں ، تو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ چینی لوگوں کا معیار زندگی کیا ہے۔ اب آپ میرے گھر جاکر دیکھ سکتے ہیں کہ میرا طرزِ رہائش کس قدر آرام دہ اور پر آسائش ہے ۔حالانکہ میں ایک سرکاری محکمے میں کام کرتا ہوں اور مجھے ایک بہت امیر شخص نہیں سمجھا جاسکتا۔ میرے بہت سے ہم جماعت اور دوست جو کاروبار کرتے ہیں ان کے تو اپنے ذاتی بنگلے ہیں۔ اب ہم چینی اپنی مرضی سے پوری دنیا میں سفر کرسکتے ہیں۔ چینی لوگوں کی آمدنی اوسط آمدنی والے ممالک کی صف میں شامل ہوگئی ہے۔ لیکن یاد رکھنا ، ان سب کامیابیوں کے پیچھے ایک بے حد اہم” عدد” کارفرما ہے ۔چین کی ان تمام کامیابیوں کے پیچھے چین کی آبادی یعنی 1.4 بلین کا عدد ہے۔ لہذا ، چین کی ترقی کا ہر قدم مضبوط رہا ہے۔ اگر اب آپ کو موقع ملا ہے تو آپ کو دیہی چین جانا چاہیے تاکہ وہاں کے لوگوں کے معیار زندگی اور رہائشی ماحول کا جائزہ لیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ ۴۰ سال پہلے کے جس ماحول کا میں نے ذکر کیا وہ تو اب ان دوردراز دیہات میں بھی نہیں ہے اور وہاں کی ترقی بھی آپ پر ایک گہرا تاثر چھوڑے گی ۔
خیر ابھی آپ نے جو سوال پوچھا اس کی طرف واپس لوٹیں ، چینی عوام کے لیے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ایک کیسی جماعت ہے۔ تو میری آپ بیتی سننے کے بعد ،آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس سوال کا جواب کیا ہے۔ پچھلے 40 سالوں میں صرف میری زندگی میں آنے والی ان تمام تبدیلیوں کا ذکر سن کر ہی آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ ہم چینی حکومت اور سی پی سی کے لیے اپنے دلوں میں کیا احساسات اور جذبات رکھتے ہیں ۔ کیا خیال ہے میرے تاثرات گزشتہ 40 سالوں میں اس ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں اور سی پی سی کی قیادت کے بارے میں چینی عوام کی نمائندگی کرسکتے ہیں ؟
زبیر اور شاہد : کیوں نہیں لیو صاحب، آپ کی گفتگو چشم کشا ہے ۔
میں :جس طرح ہم اپنی ذاتی زندگی میں بہتری پر اپنے دوستوں کے ممنون ہوتے ہیں، اسی طرح ہمیں ملک کی ترقی کے لیےبھی مشکور ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک کی ترقی دراصل کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور تمام چینی عوام کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔