معروف صحافی ڈیوڈ ڈوڈ ویل کا ایک مضمون “ساوتھ چائنا مارننگ پوسٹ” میں حالیہ دنوں شائع ہوا جس میں انہوں نے جھوٹے پروپیگنڈے کی مدد سے حقائق پر اثراانداز ہونے کے مغربی طرز سیاست پر کھل کر تنقید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سیاست کے پہلے قوانین میں سے ایک یہ ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ دکھائی دینے لگے اور اس کے سامنے ہزار حقائق بھی چھوٹے معلوم ہونے لگیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے جھوٹ پھیلانے کے اس قانون کو ایڈولف ہٹلر کے حوالے کارگر ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یقیناً ، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حواری جو سازشی نطریات تخلیق کرنے کے ماہر تھے ، انہوں نے ایسے ہی طریقوں سے عوام کو انتخابات چوری کرنے کے جھوٹے دعوؤں کے سحر میں مبتلا کر لیا تھا جس کا بعد میں کوئی ثبوت تلاش نہیں کیا جاسکا تھا۔ اور اس جھوٹ کے اثرات سب نے دیکھے۔وہ کہتے ہیں کہ جھوٹ کو کارگر بنانے کے لئے پہلے جھوٹ کو متعارف کروایا جاتا ہے، پھر اسے بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اسے جعلی خبروں کے ذریعے اتنا پھیلایا جاتا ہے کہ اس کا انکار ہی ممکن نہیں رہتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھےچین کے “قرض کے جال سے سفارت کاری” کے تازہ ترین دعوؤں نے ایک بار پھر اس قانون کی یاد دلا دی ہے۔ وہ کہتے ہیں چین نے ترقی پذیر دنیا کی مدد کی ہے لیکن اس حوالے سے جو تصور پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ چین کا اپنی امداد پر انحصار پیدا کرنے کا مقصد ترقی پزیر ممالک کے اسٹریٹجک وسائل اور انفراسٹرکچر کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ترقی پذیر ممالک پر طاقت کے حصول کے لئے چین کی حکمت عملی سے غیر ملکی سرمایہ کاری کرنے کی پہلی داستان 2018 میں ٹرمپ کے دور میں سامنے آئی تھی۔ اس وقت کے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے متنبہ کیا تھا کہ زیمبیا کی مالی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے چین زیمبیا کی قومی طاقت اور وسائل کو سنبھالنے کے لئے تیار ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مشہور مثال سری لنکا کی ہمبن ٹوٹا بندرگاہ کی دی جاتی ہے۔قدامت پسند امریکی انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ اور ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے نام نہاد “چائنا گلوبل انویسٹمنٹ ٹریکر” منصوبے کے تحت چین کے 300 منصوبو ں کی نشاندہی کی جن کے ذریعے چین نے 400 بلین امریکی ڈالر کی معاونت کے ذریعے دیگر ممالک پر ” اثرانداز” ہونے کی کوشش کی۔ تاہم فروری میں اٹلانٹک میگزین میں پہلی بار جان ہاپکنز یونیورسٹی کے محققین ڈیبورا براٹیگم اور ہارورڈز میگ ریتھمائر کی سربراہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں”قرضوں کے جال سے سفارت کاری” کے بیانیے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ مصنف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چین کی ” قرضوں کے جا ل کی سفارت کاری ” کا اتنا واویلہ کیا جا رہا ہے کہ اب بہت سارے لوگوں کے اس یقین کو تبدیل کرنا مشکل ہوگا کہ چین دنیا کے بڑے حصوں پر کنٹرول قائم کرنے پر تلا ہوا ہے۔