ڈنمارک کے براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے حال ہی میں اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ امریکی قومی سلامتی ایجنسی نے ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے ذریعے ڈنمارک کی انٹرنیٹ تک رسائی کر کے خام ڈیٹا حاصل کرتے ہوئے جرمن چانسلر میرکل سمیت متعدد یورپی ممالک کے رہنماوں کی جاسوسی کی ۔ امریکہ جو خود کو ” سائبر سیکیورٹی محافظ ” کہتاہے نے اس اقدام سے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا ہے اور “دنیا کے سب سے بڑے سائبر بلیک ہینڈ” کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ یاد رہے کہ دو ہزار تیرہ میں ایک سابق امریکی دفاعی ٹھیکیدار سنوڈن نے میڈیا کے ذریعے امریکی حکومت کی ملکی اور غیر ملکی فون کالوں اور انٹرنیٹ مواصلات پر وسیع پیمانے پر نگرانی کو بے نقاب کیا تھا ، جن میں میرکل کے موبائل فون پر دس سال سے زیادہ نگرانی بھی شامل تھی ۔تازہ ترین واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی یورپ میں اپنی جاسوسی سرگرمیاں ختم نہیں کیں۔حالیہ دنوں جرمنی ، فرانس ، ناروے اور سویڈن سمیت متعدد یورپی ممالک نے امریکہ سے وضاحت طلب کی ہے۔ لیکن ایک “قریبی اتحادی شراکرت دار ” کی حیثیت سےامریکہ نے ابھی تک خاموشی اختیار کی ہے اور کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ بالادستی کے حامی امریکی سیاستدانوں کے لئے “امریکہ فرسٹ ” ہی واحد اصول ہے ۔جہاں تک اتحادیوں ، شراکت داروں اور بین الاقوامی ساکھ وغیرہ کی بات ہے ، امریکہ کی نظر میں ، یہ تمام آلے ہیں جن کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔واشنگٹن یوروپ کو اپنامتحدہ محاذ بناکر استعمال کر نا چاہتاہے ، جبکہ یورپ اپنی اسٹریٹجک خودمختاری کو مستقل طور پر بڑھانے کی امید رکھتا ہے ۔اس ساختی تضاد سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ امریکہ یورپ پر اعتماد نہیں کر سکتا، اسلئے طویل مدتی نگرانی کو ناگزیر قرار دیتا ہے۔