حالیہ دنوں چند آسٹریلوی سیاستدان، اعلیٰ سطح کے فوجی عہدیدار اور صحافی چین۔ آسٹریلیا تعلقات میں تناؤ اور چین۔آسٹریلیا فوجی تنازعات کے امکان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنےمیں مصروف ہیں۔دوسری جانب آسٹریلوی حکومت چین اور آسٹریلیا کے مابین معیشت و تجارت، افرادی تبادلہ اور دیگر شعبوں میں تعاون کے منصوبوں اور حاصل شدہ کامیابیوں کو نام نہاد “قومی سلامتی”کے بہانے کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے دونوں ممالک کے مابین باہمی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا ہے اور عمومی تبادلے اور تعاون کی بنیاد مجروح ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ آسٹریلوی وفاقی حکومت نے ریاست وکٹوریہ اور چین کے مابین طے شدہ”دی بیلٹ اینڈ روڈ” یادداشت اور فریم ورک معاہدے کو اس بہانے منسوخ کردیا کہ یہ آسٹریلیا کی خارجہ پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ جوابی ردعمل میں چین نے چین-آسٹریلیا اسٹریٹجک اقتصادی مذاکرات کے تحت تمام سرگرمیاں غیر معینہ مدت تک معطل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ نہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جائز اقدام ہے بلکہ آسٹریلیا کے لیے اپنے وعدوں سے انحراف کے حوالے سے ایک سخت انتباہ بھی ہے۔
اسی حوالے سے آسٹریلیا میں چند شخصیات نے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔”کینبرا ٹائمز” کی ویب سائٹ نے حال ہی میں “چین کے خلاف جنگ کے حوالے سے خطرناک بیانات قومی مفاد میں نہیں ہے” کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا ہے، جس میں چین مخالف رجحانات کے حوالے سے کچھ سیاست دانوں کو متنبہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ چین سے متعلق پالیسی کو مزید ٹھوس اور معقول بنایا جائے۔ نیوزی لینڈ کے وزیر تجارت ڈیمین او کونر نے بھی حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ آسٹریلیا چین کو بدنام کرنے کا سلسلہ ترک کرئے، اور چین کے لئے مزید احترام کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔