ہانگ کانگ کے اخبار “ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ” نے حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ہے: چین کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کےحوالے سے مغرب نے سنکیانگ کی حقیقی صورتحال بیان نہیں کی ہے۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2007 کے بعد سے سنکیانگ میں خوفناک دہشت گرد حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ “مشرقی ترکستان اسلامی تحریک” نامی ایک تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ 2002 میں امریکہ اور اقوام متحدہ دونوں نے “مشرقی ترکستان اسلامی تحریک” کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔جس طرز پر نائن الیون کے بعد انسداد دہشت گردی جنگ جاری تھی، اسی طرح چین نے بھی سنکیانگ میں انسداد دہشت گردی اقدامات کا آغاز کیا۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان اور عراق میں نصف ملین افراد جاں بحق ہوئے، اسی باعث پاکستان، شام اور لیبیا میں بھی وسیع ہلاکتیں ہوئیں۔ عراق میں دو لاکھ شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ تاہم بعد میں امریکہ نے اعتراف کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ عراق کا تعلق “نائن الیون” واقعے سے تھا، عراق نے نہ ہی “القاعدہ” تنظیم کے ارکان کو پناہ دی اور نہ ہی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھے تھے۔
ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے برعکس، چین کی انسداد دہشت گردی کی کاروائی زیادہ موئثر ہے۔ 2017 کے بعد سے آج تک چین میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین نے دہشت گردی جیسے عالمی مسئلے پر اس موئثر انداز سے قابو پایا ہے جس میں زیادہ نقصان بھی نہیں اٹھانا پڑا ہے۔ تاہم مغربی میڈیا میں کبھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔
مضمون میں مزید کہا گیا کہ سنکیانگ میں چین کی پالیسی کسی خاص مذہب یا نسلی گروہ کے خلاف نہیں، بلکہ انتہا پسندی کے خلاف ہے۔دنیا کے بڑے اسلامی ممالک اس کو بخوبی سمجھتے ہیں اور کھل کر چین کی حمایت کرتے ہیں۔