تیئیس اپریل کو چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے امریکی کونسل برائے خارجہ تعلقات کے ساتھ بیجنگ سے ورچوئل تبادلہ خیال کیا۔
وانگ ای نے کہا کہ کوئی بھی طاقت دوسرے ممالک کے منتخب کردہ راستے کو تسلیم نہ کرنے کی مجاز نہیں ہے، اور کوئی بھی ملک دوسروں کی پسند اور ناپسند کی روشنی میں اپنے نظام میں اصلاح نہیں کرے گا۔ کوئی بھی ملک اور اُس کے عوام نظام اور راستے سے متعلق فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہیں۔ وانگ ای نے کہا کہ ہم کبھی بھی غیر ملکی ماڈل کی کاپی نہیں کرتے ہیں، نہ ہی نظریہ برآمد کرتے ہیں، اور نہ ہی دوسرے ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ چین کے طریقوں کی نقل کریں۔ ہماری تجویز یہی ہے کہ تمام ممالک ایسے ترقیاتی راستوں پر گامزن ہوں جو ایک دوسرے کے باہمی احترام اور باہمی ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے قومی حالات اور لوگوں کی ضروریات سے مطابقت رکھتے ہوں۔
حالیہ دنوں ایک ایسی بحث سامنے آئی ہے جس میں چین ۔ امریکہ تنازعہ کو “جمہوریت اور آمرانہ” تنازعہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور دنیا کو نظریاتی خطوط میں منقسم کیا گیا ہے۔ لیکن جمہوریت کوئی کوکا کولا مشروب نہیں ہے، جو امریکہ میں تیار کی جاتی ہے اور پوری دنیا میں یکساں زائقے کی حامل ہے۔ اگر کرہ ارض پر صرف ایک ہی ماڈل اور ایک ہی تہذیب کو تسلیم کیا جائے تو، دنیا اپنی طاقت اور قوت حیات کو کھو دے گی۔
وانگ ای نے مزید کہا کہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے راستے پر گامزن رہتے ہوئے نہ صرف ایک ارب چالیس کروڑ چینی عوام کو غربت اور پسماندگی سے نکالا گیا ہے، بلکہ چینی قوم کو ایک بار پھر انسانی ترقی کی راہ میں اہم کردار ادا کرنے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ چین میں رائج سوشلسٹ جمہوری سیاست ایک جامع عمل اور وسیع تر جمہوریت ہے، جو عوام کی مرضی پر مبنی ہے، چین کے قومی حالات کے عین مطابق ہے، اور اسے عوام کی تائید حاصل ہے۔