افریقی ممالک میں ویکسینیشن کی تعداد مجموعی عالمی تعداد کا صرف 2فیصد ہے جبکہ افریقی خطے میں ویکسینینشن کا آغاز ہی ابھی ہوا ہے”۔ حال ہی میں ڈبلیو ایچ او کے افریقی خطے کے ڈائریکٹر ماکیڈیسو مویتی نے ایک بیان جاری کیا جس میں عالمی ویکسینیشن کی غیر مساوی تقسیم پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکی اور مغربی نوآبادیاتی اور بالادستی کی تاریخ سے شناسائی رکھنے والوں کے لیے اس میں حیرت کا کوئی پہلو نہیں کیونکہ “ویکسین کی خلیج ” صدیوں سے نوآبادیاتی لوٹ مار کی بناء پر جنم لینے والے امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے عدم مساوات کی ایک حقیقی عکاس ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوئتریس نے گزشتہ سال نیلسن منڈیلا کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ،”آئیے خود کو دھوکہ مت دیں۔ آج بھی نو آبادیاتی کے تباہ کن اثرات بدستور دنیا پر چھا رہے ہیں ۔”
وقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ اور مغربی ممالک کی خونی نو آبادیاتی کا زمانہ بیت چکا ہے۔تاہم حقیقت میں ،امریکی اور مغربی نو آبادیاتی اور بالادستی کا بھوت ابھی بھی دنیا میں بھٹک رہا ہے۔
کچھ مغربی ممالک جو اپنے مفادات اور “برتری کے احساس” کو برقرار رکھنے کے لئے دانستہ اپنے نو آبادیاتی ممالک اور علاقوں پر اثر و رسوخ جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔مثلاً ہانگ کانگ کی مادر وطن میں واپسی کے بعد سے ، “چین-برطانیہ مشترکہ اعلامیہ” میں برطانیہ سے متعلق تمام حقوق اور ذمہ داریوں کو پورا کیا گیا ہے۔ لیکن چین کی جانب سے ہانگ کانگ قومی سلامتی کے قانون کے نفاذ سے لے کر ، ہانگ کانگ کے انتخابی نظام میں بہتری کے امور تک ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک اب بھی چین کی خودمختاری کے معاملات پر بات کر رہے ہیں ، اور وہ اب بھی نو آبادیاتی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی دولت پچھلی چند صدیوں میں نوآبادیاتی لوٹ مار پر مبنی ہے۔ تاہم ، آج جمہوری بین الاقوامی تعلقات کے دور میں ، اگر وہ ماضی کی طرز پر نو آبادیاتی “برتری” کی بناء پر دوسرے ممالک کو زیرتسلط لانا چاہتے ہیں تو واقعتاً یہ بلبلے کی مانند ایک خواب جیسا ہے۔