حالیہ عرصے میں کچھ مغربی تنظیموں نے جبری مشقت کی آڑ میں سنکیانگ میں پیدا ہونے والی کاٹن کا بائیکاٹ کیا ہے۔ درحقیقت ایک طویل عرصے سے چین مخالف مغربی قوتیں سنکیانگ کی ویغور قومیت کے نام نہاد انسانی حقوق کے مسئلے کا استعمال کرتی چلی آ رہی ہیں۔ امورسنکیانگکے ماہر اور تائیوان میں انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن ہسٹری سٹڈی کے ایسوسی ایٹ محقق وو چھی ناہ نے حال ہی میں نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایسے جھوٹے مغربی بیانیے اور افواہوں کو مسترد کردیا۔انہوں نے کہا کہ چین پر دباو بڑھانا اور چین کی ترقی کو روکنا امریکہ اور چند دوسرے مغربی ممالک کی ایک طویل المیعاد حکمت عملی ہے ۔اس حکمت عملی کے پیچھے فوجی اور معاشی سطح کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور پروپیگنڈا کی سطح سمیت ایک بہت بڑا اور پیچیدہ سسٹم کارفرما ہے۔
چین میں اصلاحات اور کھلے پن کے نفاذ کے بعد ، امریکہ نے سنکیانگ میں مداخلت کے لئے مختلف حربوں کا استعمال شروع کیا۔ 1990 کی دہائی کے بعد سنکیانگ میں پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ان سرگرمیوں کے پیچھے امریکی عوامل ہیں۔ کچھ امریکی اہلکار بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امریکی حکومت سنکیانگ میں نام نہاد مذہبی حقوق اور علیحدگی کی تحریک کی حمایت کرتی ہے۔ نیشنل فاؤنڈیشن فار ڈیموکریسییہی کررہی ہے۔
جناب وو چھی ناہ نے کہا کہ چین کو اپنی قومیتی پالیسیوں کے بارے میں پر اعتماد ہونا چاہیے۔کینیڈا ، آسٹریلیا اور امریکہ جیسے ممالک جو ثقافتی تنوٰع کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اقلیتی حقوق سے متعلق اُن کا ریکارڈ بہت خراب ہے۔ ایسے ممالک ڈھٹائی اور کمال مہارت سے خود کو نسلی مساوات اور کثیر الثقافتی محافظ قرار دیتے ہیں۔