حالیہ دنوں چین اور امریکہ کے اعلی سطحیٰ اسٹریٹجک مکالمے میں ، سینئر امریکی عہدیداروں نے سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرتےہوئے مغرور رویے کا اظہار کیا۔اس کے ردعمل میں مذاکرات میں شریک چینی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے سیاسی بیورو کے ممبر اور مرکزی خارجہ امور کمیشن کے دفتر کے ڈائریکٹر یانگ جی چھی نے کہا کہ ” امریکہ خود کوبالاتر سمجھتے ہوئے چین کے ساتھ بات چیت کا مجاز
نہیں ہے ، چین کے لیے ایسے رویے نا قابل قبول ہیں”۔ امریکی اہلکاروں کے متکبرانہ رویے کے تناظر میں چین کی جانب سے معقول ، موافق اور ٹھوس جواب ، حالیہ دنوں نہ صرف چین بلکہ دنیا بھر میں بھی بحث مباحثے کا مرکز بن چکا ہے۔ چند امریکی شہریوں نے بات چیت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین نے مغرور امریکیوں کو ایک “سبق” سکھایا ہے۔ “بدقسمتی سے ، چین نے ہماری کمزوریوں کو بھانپتے ہوئے
ہمارے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کی اپنی سرزمین پر تربیت کی ہے .”امریکی کاروباری برادری نے بھی مذاکرات میں سخت امریکی رویے کو غیر معقول قراردیا ہے۔بائیڈن انتظامیہ کے حامی کی حیثیت سے ، امریکی کاروباری طبقہ عمومی طور پر بائیڈن انتظامیہ کے چین سے متعلق سخت گیر نقطہ نظر سے متفق نہیں ہے۔
دس تاریخ کو امریکی “نیوز ویک” نے ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا کہ “چین کے ساتھ بائیڈن کی سخت گیر پالیسی نے ان کے کچھ بڑے اسپانسرزکے کاروبار کو متاثر کیا ہے۔”مضمون میں کہا گیا ہے کہ وال اسٹریٹ ، فارچون 500 کمپنیوں کے ایگزیکٹو ز، بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اور ہالی ووڈ ،یہ سب بائیڈن کے حامی ہیں۔ یہ تمام کمپنیاں ایک طویل عرصے سے چین میں کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ امریکی کمپنیوں کی جانب سے چین کے ساتھ تعاون کی شدید خواہش اور مطالبے کے تناظر میں، بائیڈن انتظامیہ نے 18 اور 19 تاریخ کو چین کے ساتھ مذکورہ اعلیٰ سطحیٰ بات چیت کی تھی تاہم جو نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ امریکہ کے لئے اطمینان بخش نہیں ہیں۔ امریکہ، چاہے چین کے ساتھ مساوی تعاون اور دوستانہ رویے کا مظاہرہ کرئے ، یا بالاتر رویے کا تسلسل جاری رکھے ، جواب بہت ہی واضح ہو چکا ہے۔