بائیس تاریخ کو چین کی وزارت خارجہ کی پریس کانفرنس میں نامہ نگار نے سوال کیا کہ چین-امریکہ اعلی سطحی اسٹریجک مذاکرات کے دوران، امریکہ نے کئی مرتبہ الزام لگایا کہ چین امریکی اتحادیوں کے خلاف معاشی و فوجی “دباو” کا استعمال کررہا ہے ۔
اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھون اینگ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نام نہاد “اتحادی” اور “دباو” کے معاملے پر، چینی مرکزی کمیٹی برائے خارجہ امور کے دفتر کے ڈائریکٹر
یانگ جیے چھی اور چینی ریاستی کونسلر وانگ ای چین-امریکہ اعلی سطحی اسٹریجک مذاکرات کے آغاز میں ہی جواب دے چکے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے بعض اتجادی پوری عالمی برادری کی نمائندگی نہیں کرتے۔ در حقیقت ، دنیا کے بیشتر ممالک امریکہ کو عالمی برادری کی آواز کےطور پر تسلیم نہیں کرتے ، امریکی قدروں کو بین الاقوامی اقدار کے طور پر نہیں مانتے ، نہ ہی امریکی موقف کو بین الاقوامی رائے عام گردانتے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ چین، امریکہ اور آسٹریلیا سے متعلق امریکی اتحادیوں کے موقف میں بھی فرق ہے ۔ “جھوٹے نام نہاد اتحادوں”سے چین کو بلیک میل کرنا ممکن نہیں ہے۔ “دباو” کا ذکر کرتے ہوئے چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ چین نے نہ تو تجارتی جنگ کا آغاز کیا ،نہ غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک کے شہریوں کو گرفتار کیا اور نہ ہی بغیر کسی وجہ کے دوسرے ممالک کے کاروباری اداروں پر دباو ڈالا۔ اس لیے . “زبردستی کی سفارتکاری” کی ٹوپی امریکہ کے سر پر ہی سجتی ہے ۔